حديث غدیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً سو صحابہ نے روایت کیا ہے جن میں عشرہ( مبشرہ) بھی شامل ہیں ،وہ ایسی ثابت حدیث ہے جس میں کسی بھی قسم کی علت نہیں پائی جاتی، اس فضیلت میں علی (علیہ السلام )منفرد ہیں اس میں کوئی آپ کا شریک نہیں ہے ۔
[الكتاب: شرح مذاهب أهل السنة ومعرفة شرائع الدين والتمسك بالسنن المؤلف: أبو حفص عمر بن أحمد بن عثمان بن أحمد بن محمد بن أيوب بن أزداذ البغدادي المعروف بـ ابن شاهين (ت ٣٨٥هـ) المحقق: عادل بن محمد الناشر: مؤسسة قرطبة للنشر والتوزيع الطبعة: الأولى، ١٤١٥هـ – ١٩٩٥م ،ص 103]
حديث غدیر کا انکار تمام احادیث کا انکار ہوگا ،لہذا ناصبیوں کو اتنی جرات تو نہیں کہ وہ اس حدیث کا انکار کر دیں (البتہ بعض بدبختوں اس حدیث کو مشکوک کرنے کی کوشش ضرور کی، مگر اس سے حدیث کی صحت پر تو کوئی اثر نہیں پڑا مگر انکار کے سبب وہ ذلیل و خوار ہو گئے،انکا منحوس چہرہ کالا ہو گیا اور انکی ناصبیت عیاں ہو گئی) البتہ ناصبی معنوی تحریف ضرور کرتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ حدیث غدیر میں لفظ مولیٰ سے مراد دوستی ہے اورحدیث کا یہ ترجمہ کرتے ہیں (جس کا میں دوست اس کے علی دوست )۔
غلام مصطفی ظہیر امن پوری کا بیھقی کے کلام سے استدلال:
غلام مصطفی ظہیر امن پوری ناصبی اہل حق کے رد کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بیہقی کے کلام سے استدلال کرتا ہے :
(اس باب میں انہوں نے بے شمار حدیثیں بھی وضع کی ہیں، صحیح حدیث "من کنت مولاہ فعلي مولاہ” میں مولا کا معنی ”والی” کرتے ہیں، جو کسی بھی صورت میں درست نہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”حدیث موالاۃ ، اگر صحیح ہے، تو اس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بلا فصل ہونے پر کوئی نص نہیں۔۔۔۔۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنی خصوصیت و محبت کا ذکر کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو ان سے محبت و موالات کرنے کا اور ان سے عداوت کو ترک کرنے پر ترغیب دے رہے ہیں۔ یہاں مراد اسلام کا تعلق اور اسلام کی محبت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جس کامیں دوست ہوں، اس کے علی دوست ہیں۔ ”دوسری روایت میں ہے :”جس کا میں دوست ہوں اس کے علی دوست ہیں۔ اللہ! جو علی سے محبت کرے، تو بھی اس سے محبت کر اور جو علی سے بغض وعداوت رکھے، تو بھی اس سے عداوت رکھ۔” لازم ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے محبت رکھیں، دشمنی نہ رکھیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں یہی معنی بیان ہوا ہے :” اس ذات کی قسم، جس نے دانے کو پھاڑا اور جان پیدا کی! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وعدہ دیا تھا کہ مجھ سے کوئی مومن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے عداوت کوئی منافق ہی رکھے گا۔”
بیہقی نے اپنے اس باطل دعوے پر کوئی دلیل نہیں دی اور یہی حال دیگر ناصبیوں کا بھی ہے وہ بھی بغیر کسی دلیل کے مولی کے معنی دوست کرتے ہیں حالانکہ ان کے اس باطل عقیدہ کی رد میں سیکڑوں دلیلیں ہیں ہم سب سے چشم پوشی کرتے ہوئے فقط ایک روایت سے استدلال کریں گے جس سے واضح ہو جائے گا کہ حدیث غدیر میں لفظ مولی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد دوست نہیں بلکہ ولی ہے ۔
قرآن و حدیث کی تاویل و تفسیر کا انکار فہم سلف پر ہے:
ناصبیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن و حدیث کی تاویل و تفسیر کا انحصار فہم سلف پر ہے ،ناصبیوں کی اصطلاح میں فہم سلف کا مطلب ہے (قرآن و سنت کا فقط وہی معنی صحیح ہے جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے سمجھا ہو ) ناصبیوں کے یہاں فہم سلف حجت ہے، وہ سلف کی مخالفت کو گمراہی سمجھتے ہیں، گویا یہ نام نہاد غیر مقلد اسلاف کے اندھے مقلد ہیں، فہم سلف کی حجیت پر ناصبیوں نے بہت کچھ لکھا ہے بطور دلیل فقط دو ناصبیوں (غلام مصطفی امن پوری اور اس کا چیلا ابویحیی نور پوریTom- and Jerry) کے مضامین کے اقتباسات پیش کرتے ہیں جو انہوں نے فہم سلف کی حجیت پر لکھے ہیں :
غلام مصطفی امن پوری کا مضمون محدث فورم پر (کیا فہم سلف حجت ہے؟ )کے نام سے موجود ہے :
اگر ہم تمام اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کا وہی مفہوم لینا شروع کر دیں جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین لیتے تھے۔ ان کے بارے میں خیر و بھلائی کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ یقیناً یہ لوگ اہل حق تھے صراط مستقیم پر تھے، لہٰذا اگر ہم قرآن و سنت کو ان کی طرح سمجھنے لگیں گے تو باہمی اختلافات خود بخود ختم ہو جائیں گے اور صحیح اسلام ہمیں مل جائے گا، یوں ہم بھی صراط مستقیم پر چلنے لگیں گے۔
فہم سلف کی حجیت میں محدثین کرام اور ائمہ دین میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ وہ سب فہم سلف کو حجت سمجھتے تھے۔
ملاحظہ فرمایا بس جس طرح اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں سے علم ہونے کے بعد بھی سوال کرتے ہیں اسی طرح امیرالمومنین علیہ السلام نے بھی سوال کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کا یہ شعر بڑا برموقع ہے :
العلم قال الله، قال رسوله‘ قال الصحابة، ليس بالتمويه
”علم وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور صحابہ کرام کا فرمان ہو، ملمہ سازی علم نہیں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیز سلفی دعوت کے اصول بیان کرے ہوئے فرماتے ہیں :
والدعامة الثالثة : وهو مما تتميز به الدعوة السلفية على كل الدعوات القائمة اليوم على وجه الأرض، ما كان منها من الإسلام المقبول، وما كان منها ليس من الإسلام إلا اسماً، فالدعوة السلفية تتميز بهذه الدعامة الثالثة، ألا وھی : أن القرآن والسنة يجب أن يفهما على منهج السلف الصالح من الصحابة والتابعين وأتباعهم، أی : القرون الثلاثة المشهود لهم بالخيرية بنصوص الأحاديث الكثيرة المعروفة، وهذا مما تكلمنا عليه بمناسبات شتى، وأتينا بالأدلة الكافية التی تجعلنا نقطع بأن كل من يريد أن يفهم الإسلام من الكتاب والسنة بدون هذه الدعامة الثالثة فسيأتی بإسلام جديد، وأكبر دليل على ذلك الفرق الإسلامية التی تزداد فی كل يوم، والسبب فی ذلك هو عدم التزامهم هذا المنهج الذی هو الكتاب والسنة وفهم السلف الصالح.
اور تیسرا اصول جس سے سلفی دعوت آج روئے زمین پر موجود تمام اسلامی یا نام نہاد اسلامی دعوتوں سے ممتاز ہے، وہ (کتاب و سنت کے ساتھ) تیسرا اصول یہ ہے کہ کتاب و سنت کو سلف صالحین، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے کے مطابق سمجھنا واجب ہے۔ یہ وہ تین بہترین زمانے ہیں، جن کی بھلائی کی گواہی بہت سی مشہور و معروف احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دی گئی ہے۔ ہم اس موضوع پر مختلف مناسبتوں سے بات کر چکے ہیں اور ایسے تسلی بخش دلائل دے چکے ہیں، جن سے قطعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی شخص اس تیسرے اصول کے بغیر کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش کرے گا، وہ ایک نیا اسلام متعارف کرائے گا۔ اس پر بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ روز بروز اسلامی فرقے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کا سبب کتاب و سنت کے فہم میں سلف صالحین کے منہج کو لازم نہ پکڑنا ہے۔“ ( دروس للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی : ۳/۳۱ من مكتبة الشاملة )
نیز سلفی لوگوں (اہل حدیث) کے بارے میں لکھتے ہیں :
إنّھم يدعون إلی فھم الكتاب و السنّة علی منھج السلف الصالح، لا يكتفون فقط بدعوة المسلمين إلی الرجوع إلی الكتاب والسنة، بل يزيدون علی ذلك إلی الرجوع إلی الكتاب والسنّة علی منھج السلف الصالح.
”وہ کتاب و سنت کو سلف صالحین کے منہج کے مطابق سمجھنے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو صرف کتاب و سنت کی طرف دعوت دینے پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اس پر یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ کتاب و سنت کو سلف و صالحین کے طریقے کے مطابق سمجھا جائے۔“ ( دروس الشیخ الالبانی : ۱۵/۳۸)
اب سلفی لوگوں اور سلف صالحین سے کیا مراد ہے؟ شیخ موصوف کی زبانی ملاحظہ فرمائیں :
الدعوة السلفيّة : نسبة إلی السلف وفي اللغة : ھم القوم المتقدّمون، و يراد بھم فی الاصطلاح : أنھم القرون الثلاثة الخيرة الّتی جاء الثناء عليھا عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فی قوله : ”خير القرون قرنی، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم ثم يأتی من بعد ذلك أناس يشھدون ولا يستشھدون، ويخونون ولا يؤتمنون، ويكون فيھم الكذب“، فھؤلاء بشھادة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم۔ أی لھذه القرون الثلاثة۔ أنّھم خير القرون، ولا شك أن ھديھم وطريقتھم وسنتھم ھي خير الھدی وخير السنن و خير الطرائق، و يقابل السلف الخلف، وهم الّذين جاء وا بعده ھذه القرون الثلاثة، و نحن نعلم أنه قد اختلفت طريقة السلف عن الخلف فی كثير من الأمور، فقد ظھرت بعد القرن الثالث أمور لم تكن …
”سلفی دعوت، سلف کی طرف منسوب ہے، لغوی اعتبار سے سلف سے مراد پہلے لوگ ہیں اور اصطلاح میں وہ تین بہترین زمانے ہیں، جن کی تعریف و توصیف اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے کہ سب سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر وہ لوگ جو ان کے متصل بعد ہوں گے اور پھر وہ لوگ جو ان کے متصل بعد ہوں گے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے، جو گواہی دیں گے، حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خیانت کریں گے اور ان کو امین نہیں سمجھا جائے گا۔ ان میں جھوٹ رواج پا جائے گا۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی کے مطابق یہ تین زمانے سب زمانوں سے بہترین ہیں۔ بلاشبہ ان کا طریقہ، ان کا راستہ اور ان کا منہج ہی سب طریقوں، راستوں اور مناہج سے بہترین ہے۔ سلف کے مقابلے میں خلف کا لفظ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ان تین زمانوں کے بعد آئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے امور میں سلف کا طریقہ خلف سے مختلف ہے، کیونکہ تیسری صدی کے بعد بہت سے ایسے امور ظاہر ہو گئے تھے، جو پہلے نہ تھے …“ ( دروس الشیخ الالبانی : ۲/۳۸)
قرآن و سنت کے دلائل سے مزین و مدلل محدث البانی رحمہ اللہ کے ان دروس سے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کا وہی فہم معتبر ہے، جو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین نے لیا ہے۔ اگر کوئی بعد والا شخص قرآن کریم کی کسی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کا ایسا مفہوم لیتا ہے جو سلف صالحین کے خلاف ہو تو اس پر عمل کرنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔ یہی سبیل المؤمنین ہے جس کے التزام کا حکم قرآن و حدیث نے کتاب و سنت کے التزام کے ساتھ ہی دیا ہے۔ یہی ائمہ دین اور محدثین کا طریقہ ہے اور یہی اہل الحدیث کا منہج ہے۔
نورپوری کا مضمون امن پوری کی بدنام زمانہ ماہنامہ السنہ میں شائع ہوا (فہم سلف اور اہل حدیث کے نام سے )
اہل حدیث کی خصوصیات میں سے خصوصی شرف و امتیاز یہ ہے کہ وہ سلف صالحین کے منہج و فہم کے علمبردار ہیں۔وہ اپنی عقل و دانش کی بنیاد پر قرآن و حدیث کو نہیں سمجھتے،بلکہ سلف صحابہ کرام اور ائمہ دین و محدثین کے فہم پر اکتفا کرتے ہوئے قرآن و حدیث کے مفاہیم و معانی اور مطالب معین کرتے ہیں۔بعض لوگ اس پر بہت سے سطحی اشکالات وارد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو سلف کی تقلید ہوئی اور اہل حدیث تو تقلید کو بُرابھلا کہتے ہیں۔ہاں! اگر اسے لغوی طور پر تقلید،جس کا اطلاق کبھی پیروی پر بھی ہو جاتا ہے،کہہ دیا جائے توکوئی حرج نہیں،لیکن فہم سلف کا التزام اصطلاحی تقلید،یعنی تقلیدِ شخصی نہیں کہا جا سکتا،جو کہ مذموم و ممنوع ہے۔یہ تو سلف صالحین کے اجماعی و اتفاقی منہج و فہم کی پیروی ہے، جو کہ سبیل المومنین اور واجب الاتباع ہے۔یہی وجہ ہے کہ سلف کی پیروی اہل حدیث کا شعار ہے۔
جو شخص یا گروہ شرعی نصوص کو صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے فہم و اجتہاد کے مطابق نہیں سمجھتا،وہ پکا گمراہ ہے۔سلف صالحین کی پیروی درحقیقت رشد و ہدایت اور حق و صداقت تک پہنچنے کا راستہ ہے۔یہی وہ بنیاد ہے جو امت کو انتشار و افتراق سے بچا سکتی ہے اور معاشرے کو صحیح اسلامی عقائد پر استوار کر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شیخ الاسلام،ابو العباس،احمد بن عبد الحلیم، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فہم سلف کو اختیار کرنے کی ضرورت کو یوں بیان کرتے ہیں :
”جو اس بارے میں مشہور ائمہ سنت کے کلام پر غور کرے گا ،اسے بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ وہ (علومِ دینیہ پر)سب لوگوں سے زیادہ گہری نظر رکھتے تھے اور اس بارے میں صحیح منقول اور صریح منقول دلائل کا سب سے بڑھ کر علم رکھنے والے تھے۔ان کے اقوال نقلی و عقلی دلائل کے عین مطابق ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ باہم ملتے جلتے ہیں، مختلف نہیں ہوتے اور باہم موافق ہیں، متناقض نہیں ہوتے۔جن لوگوں نے ان کی مخالفت کی ہے،وہ سلف اور ائمہ دین کے اقوال کو سمجھ نہیں پائے،نہ وہ نقلی و عقلی دلائل کی حقیقت کو جان سکے ہیں۔اس طرح وہ گمراہ ہو کر وحیِ الٰہی میں اختلاف کا شکار ہو گئے اور اس کے مخالف بن گئے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْ الْکِتَابِ لَفِيْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ)(البقرۃ 2 : 176) (اور جن لوگوں نے کتاب[وحی]میں اختلاف کیا ہے،وہ دور کی گمراہی میں جا پڑے ہیں)۔”(درء تعارض العقل والنقل : 301/2)
قرآنِ کریم میں فہم سلف کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے،فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
”اے ایمان والو! اللہ،اس کے رسول اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو۔”
اولی الامر کے اول مصداق صحابہ کرام وتابعین اور ائمہ محدثین ہیں۔مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری صحابہ و تابعین اور ائمہ محدثین کے فہم و منہج کے مطابق کرو۔
”مہاجرین اور انصار میں سے پہلے سبقت لے جانے والوں اور ان کی احسان کے ساتھ پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گیا ہے اور وہ اس سے راضی ہو گئے ہیں۔”
یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا جس طرح مہاجرین و انصار صحابہ کرام کے لیے ہے ،اسی طرح ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو ان صحابہ کرام کا اتباع کرتے ہیں۔
صحابہ کرام کا اتباع ان کے فہم و اجتہاد میں کرنا ہے،جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خارجیوں سے مناظرہ کرتے ہوئے اسی فہمِ صحابہ ہی کو دلیل بنایا تھا۔آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا :
”میں تمہارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی طرف سے حاضر ہوا ہوں تاکہ تمہیں ان کی بات پہنچاؤں۔وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو (قرآنی و حدیثی دلائل) وہ بیان کرتے ہیں،ان سے باخبر ہیں،ان پر قرآنِ کریم نازل ہوا اور یہ لوگ وحیِ الٰہی کو تم سے بڑھ کر جانتے ہیں۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 151,150/1، ح : 2656، وقال : ہٰذا حدیث صحیحٌ علی شرط مسلم، ووافقہ الذہبيّ، وسندہ، حسنٌ)
امت کے جہالت و ضلالت اور اندھی تقلید سے نکلنے کے لیے فہم سلف کی پیروی ضروری ہے۔جس طرح اہل سنت والجماعت کا ہر گروہ قرآن و سنت کو معیارِ حق قرار دیتا ہے، اسی طرح اس کا ہر فرقہ چار وناچار قرآن وسنت کو فہم سلف کے مطابق سمجھنے کو ضروری قرار دیتا ہے،یوں یہ امت کا اجماعی فیصلہ ہے،لیکن جس طرح قرآن وسنت پر ہر دعویدار عمل نہیں کرتا،اسی طرح فہم سلف کو بھی صرف اہل حدیث ہی صحیح معنوں میں قبول کرتے ہیں۔
یہاں ہم بعض حنفی حضرات کی وہ آراء ذکر کرنا چاہتے ہیں جن میں فہم سلف کی ضرورت و اہمیت اور تقلید کی مذمت بیان ہوئی ہے :
1 علامہ محمد بن علی بن محمد،ابن ابو العز،حنفی رحمہ اللہ (792-731ھ)فرماتے ہیں :
”وہ شخص اصولِ دین کے بارے میں کلام کیسے کر سکتا ہے جس نے یہ اصول کتاب و سنت سے اخذ نہ کیے ہوں، بلکہ کسی شخص کے قول سے لیے ہوں۔اگر وہ قرآنِ کریم سے ان اصولوں کے اخذ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو قرآنِ کریم کی تفسیر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے نہیں لیتا۔وہ نہ احادیث کو دیکھتا ہے ،نہ صحابہ و تابعین کے ان اقوال میں غور کرتا ہے جنہیں ہم تک ان ثقہ راویوں نے پہنچایا ہے جن کو نقاد محدثین نے منتخب کیا تھا۔صحابہ و تابعین (کے اقوال اس لیے ضروری ہیں کہ انہوں)نے صرف قرآنِ کریم کے الفاظ نقل نہیں کیے،بلکہ اس کا معنیٰ بھی نقل کیا ہے۔وہ قرآنِ کریم کو اس طرح نہیں سیکھتے تھے جس طرح بچے (صرف لفظاً)سیکھتے ہیں،بلکہ وہ قرآنِ کریم کو اس کے معانی سمیت سیکھتے تھے۔جو شخص ان کے راستے پر نہیں چلے گا،وہ اپنی رائے سے بات کرے گا اور جو شخص اپنی رائے سے بات کرے گا اور اسے اللہ کا دین سمجھے گا،حالانکہ اس نے یہ رائے وحی سے نہیں لی ہو گی،وہ اگر درست فیصلہ بھی کرے گا تو گناہگار ہو گا۔اس کے مقابلے میں جو شخص کتاب و سنت سے مسئلہ اخذ کرے گا،اگرچہ وہ غلطی پر ہو،اسے اجر ملے گا۔اگر وہ درستی پر ہوا تو اسے دو اجر ملیں گے۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویّۃ، ص : 196,195)
یعنی صرف کتاب وسنت کا دعویٰ مبہم ہے،کیونکہ ہر گمراہ فرقہ بھی کتاب و سنت سے مسائل اخذ کرنے کا مدعی ہے۔فیصلہ کن بات یہ ہے کہ کتاب و سنت کو فہم سلف کے مطابق سمجھا جائے اور وحیِ الٰہی سے ایسا کوئی مسئلہ اخذ نہ کیا جائے،سلف جس کے مخالف ہوں۔
2 علامہ،احمد بن عبد الرحیم،المعروف بہ شاہ ولی اللہ،دہلوی،حنفی(1176-1114ھ)
فہم سلف کو فرقہ ناجیہ کا منہج قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”فرقہ ناجیہ(جنتی گروہ)وہ لوگ ہیں جو عقیدہ و عمل دونوں میں وہ بات لیتے ہیں جو کتاب و سنت سے ظاہر ہو اور جس پر جمہور صحابہ و تابعین عمل کرتے ہیں۔ہاں! جن مسائل میں کوئی شرعی نص معروف نہ ہو ،نہ اس سلسلے میں صحابہ کرام کا کوئی اتفاق سامنے آیا ہو، اس میں فرقہ ناجیہ کے لوگ بعض آثار سے استدلال کرتے ہوئے یا مجمل نصوص کی تفسیر کرتے ہوئے آپس میں مختلف ہو سکتے ہیں۔اس کے برعکس غیرناجیہ گروہ ہر وہ فرقہ ہے جو ایسے عقیدے سے منسوب ہو جو سلف صالحین(صحابہ و تابعین)کے خلاف ہے یا ایسا عمل اپنائے جو سلف سے ثابت نہیں۔”(حجۃ اللّٰہ البالغۃ : 170/1)
”امت ِمسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ شریعت کو سمجھنے کے سلسلے میں اپنے سلف پر اعتماد کرتی ہے۔تابعین کرام نے صحابہ پر اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا،اسی طرح ہر طبقے کے اہل علم نے اپنے سے پہلے لوگوں پر اعتماد کیا۔عقل بھی اس طریقے کو اچھا سمجھنے پر دلالت کرتی ہے،کیونکہ شریعت کی معرفت نقل(روایت)اور استنباط دو چیزوں سے ہوتی ہے۔جس طرح روایت صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ہر طبقہ اپنے سے پہلے طبقے سے اتصال کے ساتھ لے،اسی طرح استنباط میں بھی ضروری ہے کہ متقدمین کے مذاہب بخوبی معلوم ہوں تاکہ کوئی استنباط سلف کے اقوال سے خارج ہو کر اجماعِ امت کا مخالف نہ ہو جائے۔”(عقد الجید في أحکام الاجتہاد والتقلید، ص : 36)
3 جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی(1352-1292ھ)کہتے ہیں:
”قرآن کریم کی تقریر کو سمجھنے کا سب سے زیادہ قابل اعتماد راستہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور صحابہ و تابعین کا تعامل ہے۔”(درس ترمذی از تقی عثمانی : 252/1)
4 جناب شبیر احمد عثمانی،دیوبندی،فلسفی(م : 1369ھ)لکھتے ہیں :
”تَمَسُّک بالقرآن(قرآنِ کریم کو لازم پکڑنے)کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کو اپنی آراء و اہواء کا تختہئ مشق بنا لیا جائے،بلکہ قرآنِ کریم کا مطلب وہ ہی معتبر ہو گا، جو احادیث ِصحیحہ اور سلف صالحین کی متفقہ تصریحات کے خلاف نہ ہو۔”
(تفسیر عثماني، ص : 81، تحت سورہئ بقرہ : 107)
5 حافظ محمد ادریس،کاندھلوی،دیوبندی(م : 1394ھ)لکھتے ہیں :
”اس لیے کتاب و سنت کا مفہوم اور جو علوم کتاب و سنت سے ماخوذ اور مستفاد ہوں گے، وہ وہی ہوں گے جو صحابہ کرام] نے سمجھے ہیں۔ہر بدعتی اور گمراہ اپنے فاسد عقائد کو اپنے زعم اور خیال میں کتاب وسنت ہی سے ماخوذ ہونے کا مدعی ہے،لہٰذا کتاب وسنت کے وہی معانی اور مفاہیم معتبر ہوں گے،جو حضرات صحابہ کرام] نے سمجھے ہیں۔اس کے خلاف کسی مفہوم کا اعتبار نہ ہو گا۔جو شخص صحابہ کرام کے خلاف کتاب وسنت کا کوئی مفہوم بیان کرے،بس یہی اس کے گمراہ اور بے عقل ہونے کی دلیل ہے۔اگر صحابہ] نہیں سمجھے تو یہ نیم عربی داں اور یہ نیم انگریزی خواں کہاں سے سمجھ گیا؟ یہ نیم کی قید اس لیے لگائی کہ پورا عربی داں تو وہی سمجھے گا،جو صحابہ و تابعین اور سلف صالحین نے سمجھا اور پورا انگریزی داں جو عربی سے بالکل بے خبر ہو گا،سو اگر وہ عاقل اور دانا ہو گا تو وہ کتاب و سنت کے بارے میں کچھ لب کشائی نہ کرے گا۔اس لیے کہ عاقل اور دانا اس کتاب کے مطلب بیان کرنے پر کبھی جرأت نہیں کر سکتا،جس کتاب کی وہ زبان نہ جانتا ہو۔جس طرح ایک عربی زبان کا فاضل اور ادیب انگریزی قانون کی شرح کے بارے میں لب کشائی نہیں کر سکتا، اسی طرح ایک انگریزی داں قرآن و حدیث کی تفسیر پر لب کشائی نہیں کر سکتا اور محض ترجمہ دیکھ کر اپنے کو قانون داں سمجھنا بھی نادان ہونے کی دلیل ہے۔”(عقائد ِاسلام، ص : 166)
فہم سلف کے مطابق حدیث غدیر میں لفظ مولی کا معنی ولی ہے:
دلائل کو آپ نے ملاحظہ فرمایا، یہ گروہ سلف کی اندھی تقلید کا کس حد تک قائل ہے ،آئیں اب فہم سلف میں مولی کے معنی تلاش کرتے ہیں کہ حدیث غدیر میں سلف مولی سے کیا مراد لیتے ہیں؟
ریاح بن حارث کا بیان ہے کہ (صحابہ کی ایک )جماعت علی (علیہ السلام ) کے پاس ایک وسیع میدان میں آئی اور کہا سلام ہو آپ پر ہمارے سرپرست ، تو (علی علیہ السلام نے )کہا میں تمہارا سرپرست کیسے ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو (یعنی آزاد ہو) تو انہوں نے کہا کہ ہم نے روز غدیر خم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کا میں سرپرست ہوں اس کے علی سرپرست ہیں ،ریاح کا بیان ہے جب وہ جماعت واپس گئی تو میں بھی انکے پیچھے چلا میں نے پوچھا یہ کون ہیں تو لوگوں نے کہا یہ انصار کی ایک جماعت ہے ان میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
[الكتاب: مسند الإمام أحمد بن حنبل المؤلف: الإمام أحمد بن حنبل (١٦٤ – ٢٤١ هـ) المحقق: شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي ,الناشر: مؤسسة الرسالة ,الطبعة: الأولى، ١٤٢١ هـ – ٢٠٠١, ج 38 ص 542 ,ح:23563]
علماء رجال سے سب راویوں کا مختصر توثیق بھی نقل کئے دیتے ہیں تاکہ حجت تمام ہو جائے :
(1) يحيى بن آدم بن سليمان الأموي:
صحاح ستہ کا راوی ہے ابن حجر نے ائمہ اہل سنت سے اس کی توثیق نقل کی ہے:
ع – يحيى بن آدم بن سليمان الأموي، مولى آل أبي معيط، أبو زكريا الكوفي.
روى عن: عيسى بن طهمان، وفطر بن خليفة، وإسرائيل، والثوري، وجرير بن حازم، والحسن بن حي، والحسن بن عياش، وزهير بن معاوية، وأبي الأحوص، وعمار بن رزيق، وفضيل بن مرزوق، ومفضل بن مهلهل، وورقاء، ووهيب، وأبي بكر بن عياش وخلق.
وعنه: أحمد، وإسحاق، وعلي ابن المديني، ويحيى بن معين، والحسن بن علي الخلال، وأحمد بن أبي رجاء الهروي، وأبو كريب، والمسندي، وابنا أبي شيبة، وعبدة بن عبد الله الصفار، وعباس بن حسين القنطري، ومحمد بن رافع، ومحمود بن غيلان، وهارون الحمال، والحسن بن علي بن عفان العامري وآخرون.
قال عثمان الدارمي، عن ابن معين: ثقة.
وكذا قال النسائي.
وقال الآجري: سئل أبو داود عن معاوية بن هشام، ويحيى بن آدم، فقال: يحيى بن آدم واحد الناس.
وقال أبو حاتم: كان يتفقه، وهو ثقة.
وقال يعقوب بن شيبة: ثقة كثير الحديث فقيه البدن ولم يكن له سن متقدم، سمعت علي ابن المديني يقول: يرحم الله تعالى يحيى بن آدم، أي علم كان عنده، وجعل يطريه.
وقال أبو أسامة: ما رأيت يحيى بن آدم إلا ذكرت الشعبي.
وقال ابن سعد وغيره: مات في ربيع الأول سنة ثلاث ومائتين.
قلت: تتمة كلام ابن سعد: وكان ثقة.
وقال العجلي: كان ثقة جامعا للعلم عاقلا ثبتا في الحديث.
وذكره ابن حبان في الثقات، وقال: كان متقنا يتفقه.
وقال ابن شاهين في الثقات: قال يحيى بن أبي شيبة: ثقة، صدوق، ثبت، حجة ما لم يخالف من هو فوقه مثل وكيع.
خلاصہ یہ ہے کہ ابن معین ،نسائی، ابو حاتم، یعقوب بن شیبہ، ابن سعد،
عجلی نے اسے ثقہ کہا ابن حبان و ابن شاہین نے اس کا شمار ثقات میں کیا
[الكتاب: تهذيب التهذيب المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن حجر شهاب الدين العسقلاني الشافعي (٧٣٣ هـ – ٨٥٢ هـ) باعتناء: إبراهيم الزيبق، عادل مرشد الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت الطبعة: الأولى، ١٤٣٥ هـ – ٢٠١٤ م عدد الأجزاء: ٤ ،ج 4 ص 337]
روى عن: أبيه، وسويد بن غفلة، وعمرو بن ميمون، والأسود بن يزيد، وعبد الرحمن بن الأسود، وغيرهم.
وعنه: أبو أسامة، ووكيع، وشريك بن عبد الله، وأبو أحمد الزبيري، وأبو نعيم – وقال: كان ثقة – وعدة.
وقال أبو حاتم: صالح الحديث ما به بأس.
قلت: وذكره ابن حبان في الثقات.
وقال ابن سعد: كان ثقة، قليل الحديث.
وقال أبو بكر البزار في مسنده: ليس به بأس.
وقال العجلي: ثقة.
انو نعیم ،ابن سعد، عجلی نے ثقہ کہا، ابو حاتم نے صالح حدیث ہے اس میں کوئی حرج نہیں، ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا، بزار نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں۔
[الكتاب: تهذيب التهذيب المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن حجر شهاب الدين العسقلاني الشافعي (٧٣٣ هـ – ٨٥٢ هـ) باعتناء: إبراهيم الزيبق، عادل مرشد الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت الطبعة: الأولى، ١٤٣٥ هـ – ٢٠١٤ م عدد الأجزاء: ٤ , ج 1 ص 503]
ابن حجر نے اس کی توثیق عجلی و ابن حبان سے نقل کی ہے:
د س ق – رياح بن الحارث النخعي، أبو المثنى، الكوفي، يقال: إنه حج مع عمر.
وروى عن: ابن مسعود، وعلي، وسعيد بن زيد، وعمار بن ياسر، والحسن بن علي بن أبي طالب ﵃، والأسود بن يزيد.
وعنه: ابنه جرير، وحفيده صدقة بن المثنى بن رياح، والحسن بن الحكم النخعي، وأبو جمرة الضبعي وعدة.
ذكره ابن حبان في الثقات.
قلت: وقال العجلي: كوفي تابعي ثقة.
ابن حبان نے اس کا ذکر ثقات میں کیا، عجلی نے کہا ثقہ تابعی ہے
[الكتاب: تهذيب التهذيب المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن حجر شهاب الدين العسقلاني الشافعي (٧٣٣ هـ – ٨٥٢ هـ) باعتناء: إبراهيم الزيبق، عادل مرشد,الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت الطبعة: الأولى، ١٤٣٥ هـ – ٢٠١٤ م, ج 1 ص 517]
ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس روایت کو احمد و طبرانی سے نقل کیا اور کہا احمد کے سب راوی ثقہ ہیں، اور مجمع الزوائد کے محقق حسین سلیم اسد الدارانی نے احمد کی سند کو صحیح اور طبرانی کی روایت کو حسن کہا۔
محقق وصی اللہ بن محمد عباس نے سند کو صحیح تسلیم کیا ہے:
اس روایت کو عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اپنے باپ سے فضائل الصحابہ میں روایت کیا کتاب کے محقق وصی اللہ بن محمد عباس نے سند کو صحیح تسلیم کیا ۔
علماء نواصب کی مشکلیں لفظ مولی کا ترجمہ کرنے میں:
ان تمام علماء و محققین کی گواہیوں سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ سند بالکل صحیح ہے، اس پر کسی قسم کا اشکال وارد نہیں ہو سکتا۔
روایت بظاہر تو چھوٹی سی ہے مگر ناصبیوں کی تمام باطل دلیلوں پر ضربتِ کاری ہے جس کی تاب ناصبیوں میں نہیں لہذا یہی سبب ہے کہ جب دیسی ناصبیوں نے مسند احمد، فضائل الصحابہ، معجم الکبیر طبرانی کا ترجمہ کیا تو انہیں اس حدیث کے ترجمے میں بڑی مشکل پیش آئی لہذا ترجمہ میں بڑی خیانتیں کی جس کی وجہ سے روایت بے معنی بن گئی، ان شیوخ الحدیث، علماء، محققین کے ترجموں کو اگر نابالغ بچے کے سامنے بھی پیش کیا جائے تو ان بے تکے ترجموں کو دیکھ کر مترجمین کے احمق ہونے کی گواہی دے دے گا بعض ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
نور احمد بشار کا ترجمہ:
یہ تصویریں احمد بن حنبل کی کتاب فضائل الصحابہ کی ہیں، کتاب کا اردو ترجمہ نور احمد بشار نے کیا ہے نظر ثانی ابو صالح سلیمان نورستانی نے کی ہے ۔
ملاحظہ فرمایا مترجم نے ترجمہ یوں کیا:
ریاح بن حرث رحمت اللہ علیہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی کے پاس وسیع میدان میں ایک وفد آیا اور کہا ہمارے سردار السلام علیکم! سیدنا علی نے کہا تم عرب لوگ ہو میں تمہارا سردار کیسے ہوا؟ان لوگوں نے کہا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غدیر خم کے موقع پر سنا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے۔
مترجم نے پہلے تو مولی کا ترجمہ (سردار ) کیا اور دوسری بار (دوست) ترجمہ کیا، جبکہ حقیقت تو یہ ہے جو ترجمہ پہلی مرتبہ کیا وہی دوسری بار بھی ہونا چاہئے ورنہ روایت بے معنی ہو جائے گی، مگر ناصبی کی مجبوری یہ ہے اگر دونوں بار مولی کا معنی دوست کرتا ہے تو تمام صحابہ کو منافق تسلیم کرنا پڑے گا اور اگر دونوں جگہ سردار ترجمہ کرتا ہے تو ابوبکر، عمر، عثمان کی خلافت نص کے مقابل اجتہاد کے سبب باطل قرار پاتی ہیں، ناصبیوں کی آسانی کے لئے مزید وضاحت کے دیتے ہیں ۔
جب امیرالمومنین علیہ السلام نے صحابہ سے کہا میں تمہارا مولی (سردار )کیسے ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو ،اگر ناصبی یہاں ترجمہ دوست کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عرب قوم حضرت علی علیہ السلام کی دشمن تھی نتیجہ یہ ہوگا کہ تمام عربی صحابہ و تابعین امیرالمومنین علیہ السلام کے دشمن تھے اور نص نبوی سے یہ ثابت ہے علی علیہ السلام کا دشمن منافق ہے، اس لئے مجبوری میں ناصبی نے مولی کا معنی سردار ذکر کیا پھر صحابہ نے حضرت علی علیہ السلام کے سوال کے جواب میں کہا ہم نے غدیر خم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا جس کا میں مولی ہوں اس کے علی مولی ہیں ناصبی نے یہاں مولی کا ترجمہ دوست کر دیا۔
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ بھان متی نے کنبہ جوڑا۔
حضرت علی علیہ السلام یہ پوچھ رہے ہیں میں تمہارا سردار کیسے ہوا اور صحابہ کہہ رہے ہیں ہم نے یہ سنا جس کا میں دوست اس کے علی دوست، کیا ذرہ برابر عقل رکھنے والا ایسا بے تکا ترجمہ تسلیم کر سکتا ہے؟ سوال کچھ جواب کچھ مگر ناصبیوں کی مجبوری بھی ہے ،اگر وہ یہ ترجمہ کرتا کہ
(کہا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غدیر خم کے موقع پر سنا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس کا میں سردار ہوں علی بھی اس کا سردار ہے) تو یہ امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت پر نص جلی ہوتی کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی حیات طیبہ میں ہی میں امیرالمومنین علیہ السلام کو مسلمانوں کا سردار بنا گئے تھے تو صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت کیوں کی اور کیوں ابوبکر، عمر اور عثمان حدیث کو پس پشت ڈال کر خلیفہ بن گئے ،لہازا ناصبی نے الٹا سیدھا ترجمہ کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔
حافظ فیض اللہ ناصر کا ترجمہ:
فضائل الصحابہ کے ایک دوسرے مترجم حافظ فیض اللہ ناصر کا ترجمہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
رحبہ کے مقام پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لوگوں کی ایک جماعت آئی، انہوں نے کہا اے ہمارے مولا!السلام علیک ۔آپ نے فرمایا میں تمہارا مولا کیسے ہو سکتا ہوں، تم تو عرب قوم ہو؟ تو انہوں نے کہا ہم نے غدیر خم کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہونا چاہیے ۔
یہاں مترجم نے پہلی مرتبہ مولی کا ترجمہ ہی نہیں کیا بلکہ مولی کے ترجمہ میں مولی ہی لکھ دیا جبکہ دوسری مرتبہ مولی کا ترجمہ دوست کیا ،اگر یہاں بھی پہلے مولی کا ترجمہ سردار، یا آقا کرتا تو وہی مشکل پیش آتی جس کا ذکر ہم نے تفصیل سے کیا۔
محمد ظفر اقبال کا ترجمہ:
یہ تصویریں احمد بن حنل کی مسند کی ہیں اس کتاب کا ترجمہ محمد ظفر اقبال نے کیا ہے لکھتا ہے :
ریاح بن حارث کہتے ہیں کہ ایک گروہ رحبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا السلام علیک یا مولانا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہارا آقا کیسے ہو سکتا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو؟ انہوں نے کہا ہم نے نبی علیہ السلام کو غدیر خم کے مقام پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں جس کا مولی ہوں علی بھی اس کے مولی ہیں،
مترجم نے اس ترجمہ میں بھی وہی خیانت کی ہے جو نور احمد بشار نے کی، پہلے تو مولی کا ترجمہ آقا کیا مگر دوسری بار مولی کا ترجمہ دوست کیا۔
شیخ الحدیث عباس انجم گوندلوی، پروفیسر سعید مجتبی سعیدی، ابو القاسم محمد محفوظ اعوان کا ترجمہ:
یہ مسند احمد بن حنبل کا دوسرا ترجمہ ہے فتح الربانی کے نام سے اس کے اردو مترجم شیخ الحدیث عباس انجم گوندلوی، پروفیسر سعید مجتبی سعیدی، ابو القاسم محمد محفوظ اعوان ہیں ان کا ترجمہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
ریاح بن حارث سے مروی ہے کہ لوگوں کی ایک جماعت رحبہ کے مقام پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور انہوں نے کہا ائے ہمارے مولی! تم پر سلامتی ہو، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہارا مولی کیسے ہو سکتا ہوں تم تو عرب قوم ہو؟ ان لوگوں نے کہا ہم نے غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرماتے سنا تھا جس کا میں مولی ہوں یہ علی بھی اس کا مولی ہے۔یہاں مترجمین سمجھ گئے کہ اگر روایت میں مولی کا ترجمہ کریں گے تو مصیبت مول لیں گے لہذا انہوں نے پوری روایت میں مولی کا ترجمہ ہی نہیں کیا مگر اس کے بعد والی روایت میں مولی کا ترجمہ دوست کیا اس سے واضح ہو گیا وہ بھی جانتے تھے کہ روایت میں مولی کا ترجمہ کیا ہوگا اس لئے ترجمہ نہیں کیا۔
غلام دستگیر چشتی سیالکوٹی کا ترجمہ:
یہ تصویریں المعجم الكبير طبرانی کی ہیں اردو ترجمہ غلام دستگیر چشتی سیالکوٹی نے کیا ہے:
حضرت ریاح بن حارث نخعی فرماتے ہیں کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے انصار سے ایک اونٹ سوار قافلہ آیا انہوں نے عمامے باندھے ہوئے تھے، اس نے عرض کی اے میرے مددگار آپ پر سلامتی ہو! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہارا مددگار ہوں!تم عرب قوم ہو؟ اس نے کہا جی ہاں! ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جس کا میں مددگار ہوں اس کے علی مددگار ہیں ۔
اس ترجمہ میں بھی خرابی پائی جاتی ہے اگر مولی کا معنی روایت میں مددگار ہی تھا تو حضرت علی علیہ السلام نے کیوں فرمایا کہ میں تمہارا مددگار کیسے ہو سکتا ہوں؟ جبکہ تم عرب قوم ہو، تو کیا حضرت علی علیہ السلام عرب قوم کے مددگار نہیں ہو سکتے؟ پس یہ معنی بھی باطل ہوا۔
ناصبیوں کی جانب سے ایک اشکال:
ناصبیوں کی طرف سے یہ اشکال کیا گیا ہے اگر حضرت علی علیہ السلام لفظ (مولی ) سرپرستی یا ولایت مراد لیتے تھے تو صحابہ سے نہ پوچھتے کہ میں تمہارا سرپرست، ولی کیسے ہو گیا جبکہ تم عرب قوم ہو۔
اشکال کا جواب:
ضروری نہیں کوئی فقط اسی کے متعلق سوال کرے جسے وہ نہیں جانتا یہ عقیدہ کفریہ ہے اس کا قائل شریعت کی نظر میں کافر قرار پاتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا:
وَمَا تِلْكَ بِـيَمِيْنِكَ يَا مُوْسٰى ( طہ17)
اور اے موسٰی تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے۔
تو کیا نعوذ باللہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کو معلوم نہیں تھا؟ موسی علیہ السلام کے ہاتھ میں کیا ہے، اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ نعوذبااللہ اللہ کو علم نہیں تھا تو یہ صریح کفر ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پوچھا کیوں؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ کبھی عالم جان بوجھ کر دوسروں سے سوال کرتا ہے، جس کا جواب اسے معلوم ہوتا ہے تاکہ حقیقت کو واضح کیا جا سکے چنانچہ ایسی بہت سی احادیث ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے سوالات کئے ،بطور مثال بخاری کی ایک روایت پیش کرتے ہیں:
ابن عمر نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اچھا مجھ کو بتلاؤ تو وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے، ہر وقت میوہ دے جاتا ہے؟ ابن عمر کہتا ہے میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں نے دیکھا کہ ابوبکر اور عمر نے جواب نہیں دیا تو مجھ کو جواب دینے میں کراہت محسوس ہوئی ۔ جب ان لوگوں نے کچھ جواب نہیں دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے کھڑے ہوئے تو میں نے اپنے باپ عمر سے کہا،اللہ کی قسم! میرے دل میں آیا تھا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے۔ اس نے کہا پھر تو نے کہہ کیوں نہ دیا۔ میں نے کہا تم لوگوں نے کوئی بات نہیں کی میں نے آگے بڑھ کر بات کرنا مناسب نہ جانا۔ اس نے کہا واہ اگر تو اس وقت کہہ دیتا تو مجھ کو اتنے اتنے مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔
]الكتاب: صحيح البخاري المؤلف: أبو عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفي تحقيق: جماعة من العلماء الطبعة: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر، ١٣١١ هـ، بأمر السلطان عبد الحميد الثاني ثم صَوّرها بعنايته: د. محمد زهير الناصر، وطبعها الطبعة الأولى ١٤٢٢ هـ لدى دار طوق النجاة – بيروت، مع إثراء الهوامش بترقيم الأحاديث لمحمد فؤاد عبد الباقي، والإحالة لبعض المراجع المهمة كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ،1. بَابُ قَوْلِهِ: {كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أُكْلَهَا كُلَّ حِينٍ} ،حدیث: 4698[
اگر امیرالمومنین علیہ السلام لفظ (مولی) سے سرپرستی، ولایت مراد نہ لیتے تو ان صحابہ سے ضرور کہتے کہ اس حدیث میں میری ولایت کا ذکر نہیں بلکہ محبت کا ذکر ہے۔
خلاصہ یہ کہ امیرالمومنین علیہ السلام و دیگر صحابہ بھی حدیث غدیر میں لفظ مولی سے مراد ولایت لیتے تھے ۔
Post Comment