زانی صحابہ اور صحیحین
فہرست
ایک زانی صحابیہ
- صحیح بخاری ح 4757
- صحیح بخاری ح 2671
- صحیح مسلم ح 3757
- صحیح بخاری ح 4757
- بخاری نے ح 4757 کمی بیشی کے ساتھ مختلف ابواب میں نقل کیں
- مسلم نے اپنی صحیح میں متعدد طرق سے اس روایت کو نقل کیا ہے
- صحیح مسلم ح 3746
- صحیح مسلم ح 3755 ابن مسعود سے بھی روایت کی ہے
- صحابیہ کا توبہ سے انکار
- صحیح بخاری ح 5311
- صحیح بخاری ح 5312
- صحیح بخاری ح 5349
- مسلم نے بھی اس قسم کی روایات اپنی صحیح میں روایت کی ہیں
- صحیح مسلم ح 3748
- صحیح مسلم ح 3749
مشہور زانیہ صحابیہ
- صحیح بخاری ح 5310
- صحیح بخاری ح 5316
- صحیح بخاری ح 6856
- مسلم نے بھی اپنی صحیح میں اس کو روایت کیا
- صحیح مسلم ح 3785
- صحیح مسلم ح 3760
ایک صحابی کے زنا کی داستان جسکو سنگسار کیا گیا تھا
- زانی کے صحابی ہونے کی دلیل
- زنا کو جہاد پر ترجیح دینے والے صحابہ
- صحیح مسلم حدیث 4424
- صحیح مسلم حدیث 4425
- صحیح مسلم حدیث 4429
نبی(ص)کی ایک کنیز(صحابیہ) کا زنا
ناصبیوں کے سیدنا مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی داستان
نوٹ:قارئین کرام ،اس مضمون میں استدلال فقط صحیحین سے کیا گیا ہے اور ان صحابہ کا ذکر کیا گیا ہے جن پر حد جاری نہیں ہوئی تھی،لہذا کوئی ناصبی یہ اعتراض نہ کرے کہ ان پر حد جاری ہو گئی تھی اور وہ گناہوں سے پاک ہو گئے تھے،جیسا کہ ابن تیمیہ نے کہا تھا۔
زنا گناہان کبیرہ میں سے ایک گناہ:
گناہان کبیرہ کی فہرست میں ایک گناہ زنا بھی ہے جسے شریعت میں قبیح ترین گناہوں میں شمار کیا گیا ہے ،نہ فقط مذہبی نقطہ نظر سے یہ بری چیز ہے بلکہ معاشرے میں بھی اسے برا سمجھا جاتا ہے لوگ اس کے مرتکب افراد کو ذلیل و خوار سمجھتے ہیں۔ اس قبیح عمل کے انجام دینے والے کو با عزت افراد کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں زنا کی مذمت:
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن کریم میں اس عمل سوء کی مذمت میں متعدد آیات نازل کی:
- وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَـآ ۖ اِنَّهٝ كَانَ فَاحِشَةً وَّسَآءَ سَبِيْلًا (الاسراء32)
اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ بے حیائی ہے اور بری راہ ہے۔
(2) وَالَّـذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّـٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِىْ حَرَّمَ اللّـٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُـوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا (الفرقان68)
اور وہ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور اس شخص کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام کر دیا ہے اور زنا نہیں کرتے، اور جس شخص نے یہ کیا وہ گناہ میں جا پڑا۔
احادیث میں زنا کی مذمت:
احادیث میں بھی اس برے عمل پر سخت عذاب کا وعدہ ہے، بخاری کی ایک طولانی حدیث میں زانیوں کا ذکر ہے جنکو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تنور میں برہنہ دیکھا تھا جنکو آگ جلا رہی تھی اور وہ چلا رہے تھے:
7047 – حَدَّثَنِي مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ أَبُو هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ لِأَصْحَابِهِ: «هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْ رُؤْيَا» قَالَ: فَيَقُصُّ عَلَيْهِ مَنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُصَّ، وَإِنَّهُ قَالَ ذَاتَ غَدَاةٍ: «إِنَّهُ أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ، وَإِنَّهُمَا ابْتَعَثَانِي، وَإِنَّهُمَا قَالاَ لِي انْطَلِقْ، وَإِنِّي انْطَلَقْتُ مَعَهُمَا، وَإِنَّا أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ، وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَيْهِ بِصَخْرَةٍ، وَإِذَا هُوَ يَهْوِي بِالصَّخْرَةِ لِرَأْسِهِ فَيَثْلَغُ رَأْسَهُ، فَيَتَدَهْدَهُ الحَجَرُ هَا هُنَا، فَيَتْبَعُ الحَجَرَ فَيَأْخُذُهُ، فَلاَ يَرْجِعُ إِلَيْهِ حَتَّى يَصِحَّ رَأْسُهُ كَمَا كَانَ، ثُمَّ يَعُودُ عَلَيْهِ فَيَفْعَلُ بِهِ مِثْلَ مَا فَعَلَ المَرَّةَ الأُولَى» قَالَ: ” قُلْتُ لَهُمَا: سُبْحَانَ اللَّهِ مَا هَذَانِ؟ ” قَالَ: ” قَالاَ لِي: انْطَلِقِ انْطَلِقْ ” قَالَ: ” فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُسْتَلْقٍ لِقَفَاهُ، وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَيْهِ بِكَلُّوبٍ مِنْ حَدِيدٍ، وَإِذَا هُوَ يَأْتِي أَحَدَ شِقَّيْ وَجْهِهِ فَيُشَرْشِرُ شِدْقَهُ إِلَى قَفَاهُ، وَمَنْخِرَهُ إِلَى قَفَاهُ، وَعَيْنَهُ إِلَى قَفَاهُ، – قَالَ: وَرُبَّمَا قَالَ أَبُو رَجَاءٍ: فَيَشُقُّ – ” قَالَ: «ثُمَّ يَتَحَوَّلُ إِلَى الجَانِبِ الآخَرِ فَيَفْعَلُ بِهِ مِثْلَ مَا فَعَلَ بِالْجَانِبِ الأَوَّلِ، فَمَا يَفْرُغُ مِنْ ذَلِكَ الجَانِبِ حَتَّى يَصِحَّ ذَلِكَ الجَانِبُ كَمَا كَانَ، ثُمَّ يَعُودُ عَلَيْهِ فَيَفْعَلُ مِثْلَ مَا فَعَلَ المَرَّةَ الأُولَى» قَالَ: ” قُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ مَا هَذَانِ؟ ” قَالَ: ” قَالاَ لِي: انْطَلِقِ انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَيْنَا عَلَى مِثْلِ التَّنُّورِ – قَالَ: فَأَحْسِبُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ – فَإِذَا فِيهِ لَغَطٌ وَأَصْوَاتٌ ” قَالَ: «فَاطَّلَعْنَا فِيهِ، فَإِذَا فِيهِ رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ، وَإِذَا هُمْ يَأْتِيهِمْ لَهَبٌ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ، فَإِذَا أَتَاهُمْ ذَلِكَ اللَّهَبُ ضَوْضَوْا» قَالَ: ” قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَؤُلاَءِ؟ ” قَالَ: ” قَالاَ لِي: انْطَلِقِ انْطَلِقْ ” قَالَ: «فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ – حَسِبْتُ أَنَّهُ كَانَ [ص:45] يَقُولُ – أَحْمَرَ مِثْلِ الدَّمِ، وَإِذَا فِي النَّهَرِ رَجُلٌ سَابِحٌ يَسْبَحُ، وَإِذَا عَلَى شَطِّ النَّهَرِ رَجُلٌ قَدْ جَمَعَ عِنْدَهُ حِجَارَةً كَثِيرَةً، وَإِذَا ذَلِكَ السَّابِحُ يَسْبَحُ مَا يَسْبَحُ، ثُمَّ يَأْتِي ذَلِكَ الَّذِي قَدْ جَمَعَ عِنْدَهُ الحِجَارَةَ، فَيَفْغَرُ لَهُ فَاهُ فَيُلْقِمُهُ حَجَرًا فَيَنْطَلِقُ يَسْبَحُ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَيْهِ كُلَّمَا رَجَعَ إِلَيْهِ فَغَرَ لَهُ فَاهُ فَأَلْقَمَهُ حَجَرًا» قَالَ: ” قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَذَانِ؟ ” قَالَ: ” قَالاَ لِي: انْطَلِقِ انْطَلِقْ ” قَالَ: «فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ كَرِيهِ المَرْآةِ، كَأَكْرَهِ مَا أَنْتَ رَاءٍ رَجُلًا مَرْآةً، وَإِذَا عِنْدَهُ نَارٌ يَحُشُّهَا وَيَسْعَى حَوْلَهَا» قَالَ: ” قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَذَا؟ ” قَالَ: ” قَالاَ لِي: انْطَلِقِ انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَيْنَا عَلَى رَوْضَةٍ مُعْتَمَّةٍ، فِيهَا مِنْ كُلِّ لَوْنِ الرَّبِيعِ، وَإِذَا بَيْنَ ظَهْرَيِ الرَّوْضَةِ رَجُلٌ طَوِيلٌ، لاَ أَكَادُ أَرَى رَأْسَهُ طُولًا فِي السَّمَاءِ، وَإِذَا حَوْلَ الرَّجُلِ مِنْ أَكْثَرِ وِلْدَانٍ رَأَيْتُهُمْ قَطُّ ” قَالَ: ” قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَذَا مَا هَؤُلاَءِ؟ ” قَالَ: ” قَالاَ لِي: انْطَلِقِ انْطَلِقْ ” قَالَ: «فَانْطَلَقْنَا فَانْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ عَظِيمَةٍ، لَمْ أَرَ رَوْضَةً قَطُّ أَعْظَمَ مِنْهَا وَلاَ أَحْسَنَ» قَالَ: ” قَالاَ لِي: ارْقَ فِيهَا ” قَالَ: «فَارْتَقَيْنَا فِيهَا، فَانْتَهَيْنَا إِلَى مَدِينَةٍ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ ذَهَبٍ وَلَبِنِ فِضَّةٍ، فَأَتَيْنَا بَابَ المَدِينَةِ فَاسْتَفْتَحْنَا فَفُتِحَ لَنَا فَدَخَلْنَاهَا، فَتَلَقَّانَا فِيهَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِهِمْ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ، وَشَطْرٌ كَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَاءٍ» قَالَ: ” قَالاَ لَهُمْ: اذْهَبُوا فَقَعُوا فِي ذَلِكَ النَّهَرِ ” قَالَ: «وَإِذَا نَهَرٌ مُعْتَرِضٌ يَجْرِي كَأَنَّ مَاءَهُ المَحْضُ فِي البَيَاضِ، فَذَهَبُوا فَوَقَعُوا فِيهِ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَيْنَا قَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ السُّوءُ عَنْهُمْ، فَصَارُوا فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» قَالَ: ” قَالاَ لِي: هَذِهِ جَنَّةُ عَدْنٍ وَهَذَاكَ مَنْزِلُكَ ” قَالَ: «فَسَمَا بَصَرِي صُعُدًا فَإِذَا قَصْرٌ مِثْلُ الرَّبَابَةِ البَيْضَاءِ» قَالَ: ” قَالاَ لِي: هَذَاكَ مَنْزِلُكَ ” قَالَ: ” قُلْتُ لَهُمَا: بَارَكَ اللَّهُ فِيكُمَا ذَرَانِي فَأَدْخُلَهُ، قَالاَ: أَمَّا الآنَ فَلاَ، وَأَنْتَ دَاخِلَهُ ” قَالَ: ” قُلْتُ لَهُمَا: فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ مُنْذُ اللَّيْلَةِ عَجَبًا، فَمَا هَذَا الَّذِي رَأَيْتُ؟ ” قَالَ: ” قَالاَ لِي: أَمَا إِنَّا سَنُخْبِرُكَ، أَمَّا الرَّجُلُ الأَوَّلُ الَّذِي أَتَيْتَ عَلَيْهِ يُثْلَغُ رَأْسُهُ بِالحَجَرِ، فَإِنَّهُ الرَّجُلُ يَأْخُذُ القُرْآنَ فَيَرْفُضُهُ وَيَنَامُ عَنِ الصَّلاَةِ المَكْتُوبَةِ، وَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِي أَتَيْتَ عَلَيْهِ، يُشَرْشَرُ شِدْقُهُ إِلَى قَفَاهُ، وَمَنْخِرُهُ إِلَى قَفَاهُ، وَعَيْنُهُ إِلَى قَفَاهُ، فَإِنَّهُ الرَّجُلُ يَغْدُو مِنْ بَيْتِهِ، فَيَكْذِبُ الكَذْبَةَ تَبْلُغُ الآفَاقَ، وَأَمَّا الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ العُرَاةُ الَّذِينَ فِي مِثْلِ بِنَاءِ التَّنُّورِ، فَإِنَّهُمُ الزُّنَاةُ وَالزَّوَانِي، وَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِي أَتَيْتَ عَلَيْهِ يَسْبَحُ فِي النَّهَرِ وَيُلْقَمُ الحَجَرَ، فَإِنَّهُ آكِلُ الرِّبَا، وَأَمَّا الرَّجُلُ الكَرِيهُ المَرْآةِ، الَّذِي عِنْدَ النَّارِ يَحُشُّهَا وَيَسْعَى حَوْلَهَا، فَإِنَّهُ مَالِكٌ خَازِنُ جَهَنَّمَ، وَأَمَّا الرَّجُلُ الطَّوِيلُ [ص:46] الَّذِي فِي الرَّوْضَةِ فَإِنَّهُ إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَّا الوِلْدَانُ الَّذِينَ حَوْلَهُ فَكُلُّ مَوْلُودٍ مَاتَ عَلَى الفِطْرَةِ ” قَالَ: فَقَالَ بَعْضُ المُسْلِمِينَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَوْلاَدُ المُشْرِكِينَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَوْلاَدُ المُشْرِكِينَ، وَأَمَّا القَوْمُ الَّذِينَ كَانُوا شَطْرٌ مِنْهُمْ حَسَنًا وَشَطْرٌ قَبِيحًا، فَإِنَّهُمْ قَوْمٌ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا، تَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهُمْ»
ہم آگے چلے پھر ہم ایک تنور جیسی چیز پر آئے۔ راوی نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کہا کرتے تھے کہ اس میں شور و آواز تھی۔ کہا کہ پھر ہم نے اس میں جھانکا تو اس کے اندر کچھ ننگے مرد اور عورتیں تھیں اور ان کے نیچے سے آگ کی لپٹ آتی تھی جب آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیتی تو وہ چلانے لگتے۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ میں نے ان سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ___اور وہ ننگے مرد اور عورتیں جو تنور میں آپ نے دیکھے وہ زنا کار مرد اور عورتیں تھیں۔
صحيح البخاري،كِتَاب التَّعْبِيرِ،48. بَابُ تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ:حديث 7047
https://sunnah.com/bukhari:7047




ایک زانی صحابیہ:
اس کے باوجود بھی صحابہ میں ایسے افراد تھے جو دوسرے صحابہ کی بیویوں سے زنا کرتے اور وہ صحابیات بھی ہنسی خوشی اپنے شوہروں کے ساتھ (جو کہ صحابی تھے)خیانت کرتی تھیں اور جب ان کا جرم عام ہو جاتا تو بجائے توبہ و استغفار کرنے کے جھوٹی قسمیں کھا جایا کرتی تھیں، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان سے کہتے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے وہ توبہ کر لے دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے، مگر وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کے بجائے شیطان کی اطاعت کرتے، ایک صحابیہ نے تو زناکاری میں وہ مہارت(P.H.D) حاصل کر رکھی تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کہنا پڑا “اگر میں کسی پر بغیر گواہوں کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کرتا “۔
ان صحابيہ رضی اللہ عنہا نے نہ جانے کتنے ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنے دام فریب میں پھنسا کر کر اچھے بھلے افراد کی فہرست سے نکال کر زانی اور ذلیل و خوار افراد کی صف میں لا کھڑا کیا تھا۔
بعض صحابہ و صحابیات کی زنا کاریوں کا چرچا بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں کیا ہے چند روایات ملاحظہ فرمائیں:
صحیح بخاری ح 4757:
4747 – حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلاَلَ بْنَ أُمَيَّةَ، قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «البَيِّنَةَ أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ»، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا رَأَى أَحَدُنَا عَلَى امْرَأَتِهِ رَجُلًا يَنْطَلِقُ يَلْتَمِسُ البَيِّنَةَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «البَيِّنَةَ وَإِلَّا حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ» فَقَالَ [ص:101] هِلاَلٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ، فَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الحَدِّ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ} [النور: 6] فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ: {إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ} [النور: 9] فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَجَاءَ هِلاَلٌ فَشَهِدَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ» ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ الخَامِسَةِ وَقَّفُوهَا، وَقَالُوا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا تَرْجِعُ، ثُمَّ قَالَتْ: لاَ أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ اليَوْمِ، فَمَضَتْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ العَيْنَيْنِ، سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ، خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ، فَهُوَ لِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ»، فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْلاَ مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ»
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہلال بن امیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کو شریک بن سحماء سے زنا کی نسبت دی
۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر کو مبتلا دیکھتا ہے تو کیا وہ ایسی حالت میں گواہ تلاش کرنے جائے گا؟ لیکن آپ یہی فرماتے رہے کہ گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی۔ اس پر ہلال نے عرض کیا۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ خود ہی کوئی ایسی آیت نازل فرمائے گا۔ جس کے ذریعہ میرے اوپر سے حد دور ہو جائے گی۔ اتنے میں جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی «والذين يرمون أزواجهم» سے «إن كان من الصادقين» ۔ (جس میں ایسی صورت میں لعان کا حکم ہے) جب نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال کو آدمی بھیج کر بلوایا وہ آیا اور آیت کے مطابق چار مرتبہ قسم کھائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس کے بعد اس کی بیوی کھڑی ہوئی اور اس نے بھی قسم کھائی، جب وہ پانچویں پر پہنچی (اور چار مرتبہ اپنی برات کی قسم کھانے کے بعد، کہنے لگی کہ اگر میں جھوٹی ہوں تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو) تو لوگوں نے اسے روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ (اگر تو جھوٹی ہو تو) اس سے تجھ پر اللہ کا عذاب ضرور نازل ہو گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس پر وہ ہچکچائی ہم نے سمجھا کہ اب وہ اپنا بیان واپس لے لے گی۔ لیکن یہ کہتے ہوئے کہ زندگی بھر کے لئے میں اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی۔ پانچویں بار قسم کھائی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھنا اگر بچہ خوب سیاہ آنکھوں والا، بھاری سرین اور بھری بھری پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو پھر وہ شریک بن سحماء ہی کا ہو گا۔ چنانچہ جب قپیدا ہوا تو وہ اسی شکل و صورت کا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ کا حکم نہ آ چکا ہوتا تو میں اسے رجمی سزا دیتا۔
صحيح البخاري،كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ،3. بَابُ قَوْلِهِ: {وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ} :حدیث 4747
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-bukhari/hadees-no-31544.html



صحیح بخاری ح 2671:
2671 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ هِلاَلَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «البَيِّنَةُ أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ»، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا رَأَى أَحَدُنَا عَلَى امْرَأَتِهِ رَجُلًا، يَنْطَلِقُ يَلْتَمِسُ البَيِّنَةَ؟ فَجَعَلَ يَقُولُ: «البَيِّنَةَ وَإِلَّا حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ» فَذَكَرَ حَدِيثَ اللِّعَانِ
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہلال بن امیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ تہمت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس پر گواہ لا ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔“ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی شخص اگر اپنی عورت پر کسی دوسرے کو دیکھے گا تو گواہ ڈھونڈنے دوڑے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی فرماتے رہے ”گواہ لا ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔“ پھر لعان کی حدیث کا ذکر کیا۔
صحيح البخاري ، كِتَاب الشَّهَادَاتِ،21. بَابُ إِذَا ادَّعَى أَوْ قَذَفَ فَلَهُ أَنْ يَلْتَمِسَ الْبَيِّنَةَ، وَيَنْطَلِقَ لِطَلَبِ الْبَيِّنَةِ: حديث 2671
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-bukhari/hadees-no-27041.html

صحیح مسلم ح 3757:
11 – (1496) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، وَأَنَا أُرَى أَنَّ عِنْدَهُ مِنْهُ عِلْمًا، فَقَالَ: إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ بِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ، وَكَانَ أَخَا الْبَرَاءِ بْنِ مَالِكٍ لِأُمِّهِ، وَكَانَ أَوَّلَ رَجُلٍ لَاعَنَ فِي الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَلَاعَنَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيءَ الْعَيْنَيْنِ فَهُوَ لِهِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ»، قَالَ: فَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ
محمد سے روایت ہے، میں نے انس بن مالک سے پوچھا، یہ سمجھ کر کہ اس کو معلوم ہے اس نے کہا کہ ہلال بن امیہ نے نسبت کی زنا کی اپنی بیوی کو شریک بن سحماء سے اور ہلال بن امیہ براء بن مالک کا مادری بھائی تھا اور اس نے سب سے پہلے لعان کیا اسلام میں۔ راوی نے کہا: پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عورت کو دیکھتے رہو اگر اس کا بچہ سفید رنگ کا سیدھے بال والا لال آنکھوں والا پیدا ہو تو وہ ہلال بن امیہ کا ہے اور جو سرمئی آنکھوں والا گھونگریالے بالوں والا، پتلی پنڈلیوں والا پیدا ہو تو وہ شریک بن سحماء کا ہے۔“
انس نے کہا: مجھ کو خبر پہنچی کہ اس عورت کا لڑکا سرمگیں آنکھ گھونگریالے بالوں اور پتلی پنڈلیوں والا پیدا ہوا۔
صحيح مسلم،كِتَاب اللِّعَانِ،1. باب:حديث 3757
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-20064.html


صحیح بخاری ح 4757:
4745 – حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ عُوَيْمِرًا، أَتَى عَاصِمَ بْنَ عَدِيٍّ وَكَانَ سَيِّدَ بَنِي عَجْلاَنَ، فَقَالَ: كَيْفَ تَقُولُونَ فِي [ص:100] رَجُلٍ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَتَى عَاصِمٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَسَائِلَ، فَسَأَلَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرِهَ المَسَائِلَ وَعَابَهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لاَ أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَجَاءَ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ القُرْآنَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ»، فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُلاَعَنَةِ بِمَا سَمَّى اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فَلاَعَنَهَا، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ حَبَسْتُهَا فَقَدْ ظَلَمْتُهَا فَطَلَّقَهَا، فَكَانَتْ سُنَّةً لِمَنْ كَانَ بَعْدَهُمَا فِي المُتَلاَعِنَيْنِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْظُرُوا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ، أَدْعَجَ العَيْنَيْنِ، عَظِيمَ الأَلْيَتَيْنِ، خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ، فَلاَ أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ، فَلاَ أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ كَذَبَ عَلَيْهَا»، فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَصْدِيقِ عُوَيْمِرٍ، فَكَانَ بَعْدُ يُنْسَبُ إِلَى أُمِّهِ
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عویمر بن حارث بن زید بن جد بن عجلان عاصم بن عدی کے پاس آیا ۔ عاصم بنی عجلان کا سردار تھا ۔ اس نے عاصم سے کہا کہ آپ لوگوں کا ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پا لیتا ہے کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن تم پھر اسے قصاص میں قتل کر دو گے! آخر ایسی صورت میں انسان کیا طریقہ اختیار کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ کے مجھے بتائیے۔ چنانچہ عاصم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو اور عرض کیا: یا رسول اللہ! (صورت مذکورہ میں خاوند کیا کرے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل (میں سوال و جواب) کو ناپسند فرمایا۔ جب عویمر نے اس سے پوچھا تو اس نے بتا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل کو ناپسند فرمایا ہے۔ عویمر نے اس سے کہا کہ واللہ میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے پوچھوں گا۔ چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھتا ہے کیا وہ اس کو قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ قصاص میں اس کو قتل کریں گے۔ ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن کی آیت اتاری ہے۔ پھر آپ نے انہیں قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق لعان کا حکم دیا۔ اور عویمر نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر اس نے کہا: یا رسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کو روکے رکھوں تو میں ظالم ہوں گا۔ اس لیے عویمر نے اسے طلاق دے دی۔ اس کے لعان کے بعد میاں بیوی میں جدائی کا طریقہ جاری ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ دیکھتے رہو اگر اس عورت کے کالا، بہت کالی پتلیوں والا، بھاری سرین اور بھری ہوئی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے الزام غلط نہیں لگایا ہے۔ لیکن اگر سرخ سرخ گر گٹ جیسا پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے غلط الزام لگایا ہے۔ اس کے بعد ان عورت کے جو بچہ پیدا ہوا وہ انہیں صفات کے مطابق تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھیں اور جس سے عویمر کی تصدیق ہوتی تھی۔ چنانچہ اس لڑکے کا نسب اس کی ماں کی طرف رکھا گیا۔
صحيح البخاري،كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ،1. بَابُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلاَّ أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ} :حدیث 4745
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-4745


بخاری نے ح 4757 کمی بیشی کے ساتھ مختلف ابواب میں نقل کیں:
بخاری نے کمی بیشی کے ساتھ اس روایت کو بھی مختلف ابواب میں نقل کیا ہے:
صحيح البخاري،كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ،2. بَابُ: {وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ} :حدیث 4746
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-4746
صحيح البخاري،كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ،4. بَابُ قَوْلِهِ: {وَالْخَامِسَةُ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ} :حدیث 4748
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-4748
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،4. بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلاَقَ الثَّلاَثِ:حديث 5259
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5259
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،27. بَابُ إِحْلاَفِ الْمُلاَعِنِ:حديث 5306
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5306
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،29. بَابُ اللِّعَانِ وَمَنْ طَلَّقَ بَعْدَ اللِّعَانِ:حديث 5308
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5308
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،34. بَابُ التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ:حديث 5313
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5313
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،34. بَابُ التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ:،حدیث 5314
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5314
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،35. بَابُ يَلْحَقُ الْوَلَدُ بِالْمُلاَعِنَةِ:حديث 5315
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5315
صحيح البخاري،كِتَاب الْفَرَائِضِ،17. بَابُ مِيرَاثِ الْمُلاَعَنَةِ:حديث 6748
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-6748
صحيح البخاري،كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ،5. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي الْعِلْمِ وَالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالْبِدَعِ:حديث 7304
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-7304
مسلم نے اپنی صحیح میں متعدد طرق سے اس روایت کو نقل کیا ہے :
صحیح مسلم ح 3746:
4 – (1493) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمْرَةِ مُصْعَبٍ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، فَمَضَيْتُ إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ لِلْغُلَامِ: اسْتَأْذِنْ لِي، قَالَ: إِنَّهُ قَائِلٌ، فَسَمِعَ صَوْتِي، قَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ادْخُلْ، فَوَاللهِ، مَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا حَاجَةٌ، فَدَخَلْتُ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْذَعَةً مُتَوَسِّدٌ وِسَادَةً حَشْوُهَا لِيفٌ، قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللهِ، نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَيْتَ أَنْ لَوْ وَجَدَ أَحَدُنَا امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ، كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ؟ وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ، قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَاهُ، فَقَالَ: ” إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدِ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ} [النور: 6] فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ، وَوَعَظَهُ، وَذَكَّرَهُ، وَأَخْبَرَهُ: أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، قَالَ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ دَعَاهَا فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ. قَالَتْ: لَا، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنِ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنِ الْكَاذِبِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ غَضَبَ اللهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا،
سعید بن جبیر سے روایت ہے، مجھ سے پوچھا گیا لعان کرنے والوں کا مسئلہ مصعب بن زیبر کی خلافت میں۔ میں حیران ہوا کیا جواب دوں تو میں چلا عبداللہ بن عمر کے مکان کی طرف مکہ میں اور اس کے غلام سے کہا: میری عرض کرو۔ اس نے کہا: وہ آرام کرتا ہے ۔ اس نے میری آواز سنی اور کہا: کیا مبیر کا بیٹا ہے؟ میں نے کہا: ہاں اس نے کہا: اندر آ قسم اللہ کی تو کسی کام سے آیا ہو گا، میں اندر گیا تو وہ ایک کمبل بچھائے بیٹھا تھا اور ایک تکیے پر ٹیکا لگائے تھا جو چھال سے کھجور کی بھرا ہوا تھا، میں کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! لعان کرنے والوں میں جدائی کی جائے گی؟ اس نے کہا: سبحان اللہ! بے شک جدائی کی جائے گی اور سب سے پہلے اس باب میں فلاں نے پوچھا جو فلاں کا بیٹا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کیا سمجھتے ہیں اگر ہم سے کوئی اپنی عورت کو برا کام کراتے دیکھے تو کیا کرے اگر منہ سے نکالے تو بری بات نکالے گا اگر چپ رہے تو ایسی بری بات سے کیونکر چپ رہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چپ ہو رہے اور جواب نہیں دیا۔ پھر وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! جو بات میں نے آپ سے پوچھتی تھی میں خود اس میں پڑ گیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں سورہ نور میں «وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ» (24: النور: 6-9) آخر تک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں مرد کو پڑھ کر سنائیں اور اس کو نصیحت کی اور سمجھایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے ، وہ بولا: نہیں قسم اس کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا میں نے عورت پر طوفان نہیں جوڑا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بلا لیا اور اس کو ڈرایا اور سمجھایا اور فرما دیا دنیا کا عذاب سہل ہے آخرت کے عذاب سے، وہ بولی: نہیں۔ قسم اس کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے میرا خاوند جھوٹ بولتا ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کیا مرد سے اور اس نے چار گواہیاں دیں اللہ تعالیٰ کے نام کی مقرر وہ سچا ہے اور پانچویں بار میں یہ کہا کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہو پھر عورت کو بلایا اس نے چار گواہیاں دیں اللہ تعالیٰ کے نام کی، مرد جھوٹا ہے اور پانچویں بار میں یہ کہا: اللہ کا غضب اترے اس پر اگر وہ سچا ہو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جدائی کر دی ان دونوں میں۔
صحيح مسلم،كِتَاب اللِّعَانِ،1. باب:حديث 3746
https://islamweb.net/ar/library/index.php?page=bookcontents&ID=2814&bk_no=1&flag=1
صحیح مسلم ح 3755 ابن مسعود سے بھی روایت کی ہے:
10 – (1495) حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: إِنَّا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَتَكَلَّمَ، جَلَدْتُمُوهُ، أَوْ قَتَلَ، قَتَلْتُمُوهُ، وَإِنْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، وَاللهِ لَأَسْأَلَنَّ عَنْهُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَتَكَلَّمَ، جَلَدْتُمُوهُ، أَوْ قَتَلَ، قَتَلْتُمُوهُ، أَوْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، فَقَالَ: «اللهُمَّ افْتَحْ وَجَعَلَ يَدْعُو»، فَنَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ هَذِهِ الْآيَاتُ، فَابْتُلِيَ بِهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَجَاءَ هُوَ وَامْرَأَتُهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَلَاعَنَا فَشَهِدَ الرَّجُلُ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنِ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ لَعَنَ الْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، فَذَهَبَتْ لِتَلْعَنَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَهْ، فَأَبَتْ، فَلَعَنَتْ، فَلَمَّا أَدْبَرَا، قَالَ» لَعَلَّهَا أَنْ تَجِيءَ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا "، فَجَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا،
عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے میں جمعہ کی رات کو مسجد میں تھا، اتنے میں ایک مرد انصاری آیا اور بولا: اگر کوئی اپنی جورو کے پاس کسی مرد کو پائے اور منہ سے نکالے تو تم اس کو کوڑے لگاؤ گے حد قذف کے، اگر مار ڈالے تو تم اس کو مار ڈالو گے(قصاص میں) اگر چپ رہے تو اپنا غصہ پی کر چپ رہے۔ قسم اللہ کی! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گا اس مسئلے کو جب دوسرا دن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پائے پھر منہ سے نکالے تو تم کوڑے لگاؤ گے، اگر مار ڈالے تو تم اس کو بھی مار ڈالو گے اگر چپ رہے تو اپنا غصہ کھا کر چپ رہے (یہ بھی نہیں ہو سکتا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یااللہ کھول دے اس مشکل کو۔“ اور دعا کرنے لگے تب لعان کی آیت اتری «وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ» اخیر تک۔ پھر اس مرد کا امتحان لیا گیا لوگوں کے سامنے اور وہ اور اس کی جورو دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور لعان کیا پہلے مرد نے گواہی دی چار بار کہ وہ سچا ہے پھر پانچویں بار لعنت کر کے کہا: اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی۔ پھر عورت چلی لعان کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہر اور اگر خاوند کی بات سچ ہے تو اپنے قصور کا اقرار کر۔“ لیکن اس نے نہ مانا اور لعان کیا جب پیٹھ موڑ کر چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عورت کا بچہ شاید کالے رنگ کا گھونگریالے بالوں والا پیدا ہو گا اس شخص کی صورت پر جس کا خاوند کو گمان تھا۔“ پھر ویسا ہی کالا گھونگریالے بالوں والا پیدا ہوا۔
صحيح مسلم،كِتَاب اللِّعَانِ،1. باب:حديث 3755
صحابیہ کا توبہ سے انکار:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے توبہ کی دعوت بھی دی کہ اقرار جرم کر کے سزا پاکر پاک ہو جاؤ تاکہ آخرت کے عذاب سے بچ جاؤ مگر انہوں نے چند روزہ دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اور توبہ نہیں کی:
صحیح بخاری ح 5311:
5311 – حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَ: فَرَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي العَجْلاَنِ، وَقَالَ: «اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ» فَأَبَيَا، وَقَالَ: «اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ» فَأَبَيَا، فَقَالَ: «اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ» فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا قَالَ أَيُّوبُ: فَقَالَ لِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، إِنَّ فِي الحَدِيثِ شَيْئًا لاَ أَرَاكَ تُحَدِّثُهُ؟ قَالَ: قَالَ الرَّجُلُ مَالِي؟ قَالَ: قِيلَ: «لاَ مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَهُوَ أَبْعَدُ مِنْكَ»
سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر سے ایسے شخص کا حکم پوچھا جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہو تو اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عجلان کے میاں بیوی کے درمیان ایسی صورت میں جدائی کرا دی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ تو کیا تم میں سے ایک (جو واقعی گناہ میں مبتلا ہو) رجوع کرے گا ان دونوں نے انکار کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ تو کیا تم میں سے ایک (جو واقعی گناہ میں مبتلا ہو) رجوع کرے گا ان دونوں نے انکار کیا ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر فرمایا:
کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ تو کیا تم میں سے ایک (جو واقعی گناہ میں مبتلا ہو) رجوع کرے گا ان دونوں نے انکار کیا
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی کر دی۔
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،32. بَابُ صَدَاقِ الْمُلاَعَنَةِ:حديث 5311
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5311


صحیح بخاری ح 5312:
5312 – حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ حَدِيثِ المُتَلاَعِنَيْنِ، فَقَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ: «حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، لاَ سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا» قَالَ: مَالِي؟ قَالَ: «لاَ مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ» قَالَ سُفْيَانُ: حَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو وَقَالَ أَيُّوبُ، سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ لاَعَنَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَ: بِإِصْبَعَيْهِ – وَفَرَّقَ سُفْيَانُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، السَّبَّابَةِ وَالوُسْطَى – فَرَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي العَجْلاَنِ "، وَقَالَ: «اللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ» ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ” قَالَ سُفْيَانُ: حَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو وَأَيُّوبَ كَمَا أَخْبَرْتُكَ "
سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر سے لعان کرنے والوں کا حکم پوچھا تو اس نے بیان کیا کہ ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہارا حساب تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،33. بَابُ قَوْلِ الإِمَامِ لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ:حديث 5312
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5312


صحیح بخاری ح 5349:
5349 – حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ؟ فَقَالَ: فَرَّقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي العَجْلاَنِ، وَقَالَ: «اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟» فَأَبَيَا، فَقَالَ: «اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟» فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا – قَالَ أَيُّوبُ: فَقَالَ لِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: فِي الحَدِيثِ شَيْءٌ لاَ أَرَاكَ تُحَدِّثُهُ قَالَ – قَالَ الرَّجُلُ: مَالِي؟ قَالَ: «لاَ مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَهُوَ أَبْعَدُ مِنْكَ»
سعید بن کبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہو تو اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی عجلان کے میاں بیوی میں جدائی کرا دی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا وہ رجوع کرے گا؟ لیکن دونوں نے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے اسے جو تم میں سے ایک جھوٹا ہے وہ توبہ کرتا ہے یا نہیں؟ لیکن دونوں نے پھر توبہ سے انکار کیا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی کرا دی۔
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،52. بَابُ الْمَهْرِ لِلْمَدْخُولِ عَلَيْهَا:حديث 5349
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5349

مسلم نے بھی اس قسم کی روایات اپنی صحیح میں روایت کی ہیں:
صحیح مسلم ح 3748:
5 – (1493) وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ: «حِسَابُكُمَا عَلَى اللهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا»، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَالِي، قَالَ: «لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا، فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ مِنْهَا». قَالَ زُهَيْرٌ فِي رِوَايَتِهِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لعان کرنے والوں کو، ”دونوں کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔
صحيح مسلم،كِتَاب اللِّعَانِ،1. باب:حديث 3748
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-20016.html


صحیح مسلم ح 3749:
6 – (1493) وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ: «اللهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ»؟،
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جدائی کر دی بنی عجلان کے شوہر بیوی میں اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم میں سے کوئی جھوٹا ہے پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرتا ہے؟“
صحيح مسلم،كِتَاب اللِّعَانِ،1. باب:حديث 3749
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-20024.html

مشہور
زانیہ
صحابیہ
مشہور زانیہ صحابیہ:
صحیح بخاری ح 5310:
5310 – حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ [ص:55] بْنِ القَاسِمِ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ ذُكِرَ التَّلاَعُنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا الأَمْرِ إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبْطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَ أَهْلِهِ خَدْلًا آدَمَ كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ بَيِّنْ» فَجَاءَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ، فَلاَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا. قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي المَجْلِسِ: هِيَ الَّتِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ، رَجَمْتُ هَذِهِ» فَقَالَ: لاَ، تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الإِسْلاَمِ السُّوءَ قَالَ أَبُو صَالِحٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ: آدَمَ خَدِلًا
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں لعان کا ذکر ہوا اور عاصم نے اس سلسلہ میں کوئی بات کہی (کہ میں اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو وہیں قتل کر دوں) اور چلا گیا، پھر اس کی قوم کے ایک صحابی (عویمر ) اس کے پاس آیا یہ شکایت لے کر کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو پایا ہے۔ عاصم نے کہا کہ مجھے آج یہ ابتلاء میری اسی بات کی وجہ سے ہوا ہے (جو تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہی تھی) پھر وہ اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ واقعہ بتایا جس میں ملوث اس صحابی نے اپنی بیوی کو پایا تھا۔ یہ شخص زرد رنگ، کم گوشت والا (پتلا دبلا) اور سیدھے بالوں والا تھا اور جس کے متعلق اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ (تنہائی میں) پایا، وہ گھٹے ہوئے جسم کا، گندمی اور بھرے گوشت والا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! اس معاملہ کو صاف کر دے۔ چنانچہ اس عورت نے بچہ اسی مرد کی شکل کا جنا جس کے متعلق شوہر نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ پایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کے درمیان لعان کرایا۔ ایک شاگرد نے مجلس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا یہی وہ عورت ہے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا شہادت کے سنگسار کر سکتا تو اس عورت کو سنگسار کرتا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں (یہ جملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) اس عورت کے متعلق فرمایا تھا جو اسلام لانے کے بعد بدکاری کرتی تھی۔
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،31. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ»:حديث 5310
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5310


صحیح بخاری ح 5316:
5316 – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ القَاسِمِ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: ذُكِرَ المُتَلاَعِنَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَذَكَرَ لَهُ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا الأَمْرِ إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا، قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبْطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ خَدْلًا كَثِيرَ اللَّحْمِ، جَعْدًا قَطَطًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ بَيِّنْ» فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَهَا، فَلاَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي المَجْلِسِ: هِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ لَرَجَمْتُ هَذِهِ»؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لاَ، تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ السُّوءَ فِي الإِسْلاَمِ
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شاگرد نے مجلس میں پوچھا، کیا یہ وہی عورت ہے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا شہادت سنگسار کرتا تو اسے کرتا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں۔ یہ دوسری عورت تھی جو اسلام کے زمانہ میں اعلانیہ بدکاری کیا کرتی تھی۔
صحيح البخاري،كِتَاب الطَّلَاقِ،36. بَابُ قَوْلِ الإِمَامِ اللَّهُمَّ بَيِّنْ:حديث 5316


صحیح بخاری ح 6856:
6856 – حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ القَاسِمِ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ذُكِرَ التَّلاَعُنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، وَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ أَهْلِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا، قَلِيلَ اللَّحْمِ، سَبِطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ خَدِلًا، كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ بَيِّنْ» فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلاَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي المَجْلِسِ: هِيَ الَّتِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ» فَقَالَ: لاَ، تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الإِسْلاَمِ السُّوءَ
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ یہ وہی تھا جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا گواہی کے رجم کر سکتا تو اسے رجم کرتا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں یہ تو وہ عورت تھی جو اسلام لانے کے بعد برائیاں اعلانیہ کرتی تھی۔
صحيح البخاري،كتاب المحاربين،43. بَابُ مَنْ أَظْهَرَ الْفَاحِشَةَ وَاللَّطْخَ وَالتُّهَمَةَ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ: حديث 6856
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-6856


مسلم نے بھی اپنی صحیح میں اس کو روایت کیا:
صحیح مسلم ح 3785:
12 – (1497) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، وَعِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيَّانِ، واللَّفْظُ لِابْنِ رُمْح، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ أَهْلِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا، قَلِيلَ اللَّحْمِ، سَبِطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ خَدْلًا، آدَمَ، كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ بَيِّنْ»، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ»؟، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ السُّوءَ».
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نہیں وہ دوسری عورت تھی جو مسلمانوں میں برائی کے ساتھ مشہور تھی۔
صحيح مسلم،كِتَاب اللِّعَانِ،1. باب:حديث 3758
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-20068.html


صحیح مسلم ح 3760:
13 – (1497) وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ شَدَّادٍ: وَذُكِرَ الْمُتَلَاعِنَانِ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ شَدَّادٍ: أَهُمَا اللَّذَانِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ لَرَجَمْتُهَا»، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ أَعْلَنَتْ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: فِي رِوَايَتِهِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ
قاسم بن محمد سے روایت ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے لعان والوں کا ذکر ہوا تو عبد اللہ بن شداد نے کہا: ان ہی میں وہ عورت تھی جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اگر میں کسی کو بغیر گواہوں کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کرتا۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نہیں وہ عورت دوسری تھی جو علانیہ بدکار تھی۔
صحيح مسلم،كِتَاب اللِّعَانِ،1. باب:حديث 3760
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-20076.html

کیا ایسے لوگوں(صحابہ اور صحابیہ کے نام پر) کو مومنین پر فوقیت دی جا سکتی ہے؟
مگر کیا کیا جائے نواصب کا ،یہ وہ احمق افراد ہیں جو ایسے فاسق اور فاجر لوگوں کو مومنین پر فوقیت دیتے ہیں ، اپنے اس قرآن ، سنت اور عقل کے خلاف عقیدہ کو عین دین و شریعت سمجھتے ہیں اور اس کے انکار کرنے والوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔
ایک صحابی کے زنا کی داستان جسکو سنگسار کیا گیا تھا:
صحيح بخاري ح 2696:
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَا : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ ، فَقَامَ خَصْمُهُ ، فَقَالَ : صَدَقَ ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ : إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ ، فَقَالُوا لِي : عَلَى ابْنِكَ الرَّجْمُ ، فَفَدَيْتُ ابْنِي مِنْهُ بِمِائَةٍ مِنَ الْغَنَمِ وَوَلِيدَةٍ ، ثُمَّ سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ ، فَقَالُوا : إِنَّمَا عَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ ، أَمَّا الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ فَرَدٌّ عَلَيْكَ وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا أُنَيْسُ لِرَجُلٍ فَاغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَارْجُمْهَا ، فَغَدَا عَلَيْهَا أُنَيْسٌ فَرَجَمَهَا .
ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی(صحابی) آیا اور عرض کیا، یا رسول اللہ! ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئیے۔ دوسرے فریق(صحابی ) نے بھی یہی کہا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ آپ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیں۔ دیہاتی نے کہا کہ میرا لڑکا(صحابی ) اس کے یہاں مزدور تھا۔ پھر اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ قوم نے کہا تمہارے لڑکے کو رجم کیا جائے گا، لیکن میں نے اپنے لڑکے کے اس جرم کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دے دی، پھر میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لئے ملک بدر کر دیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں واپس لوٹا دی جاتی ہیں، البتہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے ملک بدر کیا جائے گا اور انیس تم (یہ قبیلہ اسلم کا فرد تھا) اس عورت کے گھر جاؤ اور اسے رجم کر دو (اگر وہ زنا کا اقرار کر لے) چنانچہ انیس گئے، اور (چونکہ اس نے بھی زنا کا اقرار کر لیا تھا اس لئے) اسے رجم کر دیا۔“
صحيح بخاري ح 2696
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-2696


اس روایت کو بخاری نے دیگر ابواب میں بھی روایت کیا ہے:
صحيح بخاري ح 6634
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-6634
صحيح بخاري ح 6828
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-6828
صحيح بخاري ح 6843
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-6843
صحيح بخاري ح 6860
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-6860
صحيح بخاري ح 7194
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-7194
مسلم نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے:
صحيح مسلم ح 4435:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، ح وَحَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُمَا قَالَا: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ [ص:1325]، أَنْشُدُكَ اللهَ إِلَّا قَضَيْتَ لِي بِكِتَابِ اللهِ، فَقَالَ الْخَصْمُ الْآخَرُ: وَهُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ نَعَمْ، فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللهِ وَأْذَنْ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُلْ»، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، وَإِنِّي أُخْبِرْتُ أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَوَلِيدَةٍ، فَسَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّمَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللهِ، الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ رَدٌّ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ إِلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا»، قَالَ: فَغَدَا عَلَيْهَا، فَاعْتَرَفَتْ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَتْ
ابوہریرہ اورزید بن خالد جہنی سے روایت ہے، ایک دیہاتی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں آپ میرا فیصلہ اللہ کی کتاب کے موافق کر دیجئے۔ دوسرا اس کا حریف وہ اس سے زیادہ سمجھ دار تھا بولا: بہت اچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کے موافق حکم کیجئیے۔ اور اذن دیجئیے مجھ کو بات کرنے کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہہ۔“ اس نے
لیث نے ابن شہاب سے ، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ان دونوں نے کہا : بادیہ نشینوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ، آپ میرے لیے اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں ۔ ( اس کے ) مخالف فریق نے کہا : اور وہ اس سے زیادہ سمجھ دار تھا ، جی ہاں ، ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کی رو سے فیصلہ کیجیے اور مجھے ( کچھ کہنے کی ) اجازت دیجیے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "” کہو ۔ "” اس نے کہا : میرا بیٹا اس کے ہاں مزدور تھا ، اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا اور مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹے پر رجم ( کی سزا ) ہے ، چنانچہ میں نے اس کی طرف سے ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی بطور فدیہ دی ، اور اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ میرے بیٹے پر ( تو ) ایک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور رجم اس کی عورت پر ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا ، لونڈی اور بکریاں تجھے واپس ملیں گی ، تمہارے بیٹے پر ایک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے ۔ اُنیس! ( انس بن ضحاک اسلمی رضی اللہ عنہ مراد ہیں ۔ عورت انہی کے قبیلے سے تھی ) اس ( دوسرے آدمی ) کی عورت کے ہاں جاؤ ، اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دو ۔ "” کہا : وہ اس کے ہاں گئے تو اس نے اعتراف کر لیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ( کو رجم کرنے ) کا حکم دیا ، چنانچہ اسے رجم کر دیا گیا۔
صحيح مسلم ح 4435
https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-muslim-4435/


زانی کے صحابی ہونے کی دلیل:
ممکن ہے کوئی یہ اعتراض کرے کہ کس دلیل سے اس زانی کو صحابی کہا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری کی روایت میں تحریف واقعہ ہوئی ہے ابن حجر کے نسخے میں موجود تھا کہ وہ زانی اپنے باپ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حضور موجود تھا ،ابن حجر لکھتا ہے:
قَوْلُهُ: (إِنَّ ابْنِي هَذَا) فِيهِ أَنَّ الِابْنَ كَانَ حَاضِرًا فَأَشَارَ إِلَيْهِ
اس دیہاتی )کا یہ کہنا کہ (میرا یہ بیٹا ) اس میں اس کا (ثبوت )ہے کہ وہ وہاں موجود تھا کہ اس کی طرف اشارہ کیا ۔
الكتاب: فتح الباري بشرح البخاري
المؤلف: أحمد بن علي بن حجر العسقلاني (٧٧٣ – ٨٥٢ هـ)
رقم كتبه وأبوابه وأحاديثه: محمد فؤاد عبد الباقي [ت ١٣٨٨ هـ]
قام بإخراجه وتصحيح تجاربه: محب الدين الخطيب [ت ١٣٨٩ هـ]
الناشر: المكتبة السلفية – مصر
الطبعة: «السلفية الأولى»، ١٣٨٠ – ١٣٩٠ هـ ج 12 ص 139
https://shamela.ws/book/1673/7126


امیر صنعانی نے بھی اس کا ذکر کیا کہ بخاری میں یہ جملہ موجود تھا:
قوله: "إن ابني” زاد في البخاري "هذا” قال ابن حجر (٥): فيه دليل أن الابن كان حاضراً فأشار إليه.
الكتاب: التَّحبير لإيضَاح مَعَاني التَّيسير
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني ثم الصنعاني، أبو إبراهيم، عز الدين، المعروف كأسلافه بالأمير (ت ١١٨٢هـ)
حققه وعلق عليه وخرج أحاديثه وضبط نصه: محَمَّد صُبْحي بن حَسَن حَلّاق أبو مصعب
الناشر: مَكتَبَةُ الرُّشد، الرياض – المملكة الْعَرَبيَّة السعودية
الطبعة: الأولى، ١٤٣٣ هـ – ٢٠١٢ م ج 3 ص 553
https://shamela.ws/book/14309/1751
محمد آدم اتھوپی نے بھی اعتراف کیا ہے:
(إِنَّ ابْنِى) وفي رواية عند البخاريّ: "إن ابني هَذَا”، قَالَ فِي "الفتح”: وفيه أن الابن كَانَ حاضرا، فأشار إليه،
الكتاب: شرح سنن النسائي المسمى «ذخيرة العقبى في شرح المجتبى».
المؤلف: محمد بن علي بن آدم بن موسى الإثيوبي الوَلَّوِي
الناشر: دار المعراج الدولية للنشر (جـ ١ – ٥)، دار آل بروم للنشر والتوزيع (جـ ٦ – ٤٠)
الطبعة: الأولى، ١٤١٦ – ١٤٢٤ هـ ج 39 ص 328
https://shamela.ws/book/12888/18763
زناکاری کو
جہاد پر
ترجیح دینے
والے
صحابہ
زنا کو جہاد پر ترجیح دینے والے صحابہ:
کچھ صحابہ ایسے بھی تھے تو کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جہاد پر جانے سے زیادہ زناکاری کو ترجیح دیتے تھے، چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جہاد پر چلے جاتے تو یہ صحابیات کے چکر میں پڑ جاتے اور بکروں کی طرح ممیاتے ہوئے صحابیات سے زنا کرتے ایسے صحابہ کے متعلق مسلم اپنی صحیح میں روایات کرتا ہے:
صحیح مسلم حدیث 4424:
17 – (1692) وحَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ حِينَ جِيءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ قَصِيرٌ، أَعْضَلُ، لَيْسَ عَلَيْهِ رِدَاءٌ، فَشَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ أَنَّهُ زَنَى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلَعَلَّكَ؟» قَالَ: لَا، وَاللهِ إِنَّهُ قَدْ زَنَى الْأَخِرُ، قَالَ: فَرَجَمَهُ، ثُمَّ خَطَبَ، فَقَالَ: «أَلَا كُلَّمَا نَفَرْنَا غَازِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ، خَلَفَ أَحَدُهُمْ لَهُ نَبِيبٌ كَنَبِيبِ التَّيْسِ، يَمْنَحُ أَحَدُهُمُ الْكُثْبَةَ، أَمَا وَاللهِ، إِنْ يُمْكِنِّي مِنْ أَحَدِهِمْ لَأُنَكِّلَنَّهُ عَنْهُ»
فرمایا: ”جب ہم نکلتے ہیں جہاد کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ میں تو کوئی پیچھے رہ جاتا ہے اور آواز کرتا ہے بکری کی سی آواز (جیسے بکری جماع کے وقت چلاتی ہے) اور دیتا ہے کسی کو تھوڑا دودھ (یعنی جماع کرتا ہے، دودھ سے مراد منی ہے) قسم اللہ کی! اگر اللہ مجھ کو قدرت دے گا ایسے کسی پر تو میں اس کو سزا دوں گا۔“ (تا کہ دوسروں کو عبرت ہو)۔
صحیح مسلم حدیث 4424۔(صحیح مسلم ترجمہ داود راز)
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-23255.html


صحیح مسلم حدیث 4425:
18 – (1692) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: أُتِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَصِيرٍ، أَشْعَثَ، ذِي عَضَلَاتٍ، عَلَيْهِ إِزَارٌ، وَقَدْ زَنَى، فَرَدَّهُ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلَّمَا نَفَرْنَا غَازِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ، تَخَلَّفَ أَحَدُكُمْ يَنِبُّ نَبِيبَ التَّيْسِ، يَمْنَحُ إِحْدَاهُنَّ الْكُثْبَةَ، إِنَّ اللهَ لَا يُمْكِنِّي مِنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ إِلَّا جَعَلْتُهُ نَكَالًا» أَوْ «نَكَّلْتُهُ»، قَالَ: فَحَدَّثْتُهُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، فَقَالَ: «إِنَّهُ رَدَّهُ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ»،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب ہم نکلتے ہیں اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے تو کوئی نہ کوئی تم میں سے پیچھے رہ جاتا ہے اور بکری کی طرح آواز کرتا ہے کسی عورت کو تھوڑا دودھ دیتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ جب میرے قابو میں ایسے شخص کو دے گا میں اس کو ایسی سزا دوں گا جو نصیحت ہو دوسروں کے لیے۔“ راوی نے کہا: میں نے یہ حدیث سعید بن جبیر سے بیان کی، انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار بار اس کی بات کو ٹالا۔
صحیح مسلم حدیث 4425(ترجمہ داود راز)
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-23257.html


صحیح مسلم حدیث 4429:
21 – (1694) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَ مَعْنَاهُ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَشِيِّ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ” أَمَّا بَعْدُ: فَمَا بَالُ أَقْوَامٍ إِذَا غَزَوْنَا يَتَخَلَّفُ أَحَدُهُمْ عَنَّا لَهُ نَبِيبٌ كَنَبِيبِ التَّيْسِ "، وَلَمْ يَقُلْ: «فِي عِيَالِنَا»،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم شام کو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف کی، پھر فرمایا: ”بعد اس کے کیا حال ہے لوگوں کا جب ہم جہاد کو جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی پیچھے رہ جاتا ہے اور ایسی آواز نکالتا ہے جیسے بکری۔
صحيح مسلم،كِتَاب الْحُدُودِ،5. باب مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَا:حديث 4429
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-23273.html

نبی(ص) کی
ایک کنیز
(صحابیہ)
کا زنا
نبی(ص)کی ایک کنیز(صحابیہ) کا زنا:
اس برے عمل کی چپیٹ میں ایسے افراد بھی تھے جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے براہ راست جڑا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کنیز بھی اس فعل حرام کی مرتکب ہوئی اور اس سے ایک بچے کو بھی جنم دیا مسلم نے روایت کیا:
صحیح مسلم 4450:
34 – (1705) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: خَطَبَ عَلِيٌّ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَقِيمُوا عَلَى أَرِقَّائِكُمُ الْحَدَّ، مَنْ أَحْصَنَ مِنْهُمْ، وَمَنْ لَمْ يُحْصِنْ، فَإِنَّ أَمَةً لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَنَتْ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَجْلِدَهَا، فَإِذَا هِيَ حَدِيثُ عَهْدٍ بِنِفَاسٍ، فَخَشِيتُ إِنْ أَنَا جَلَدْتُهَا أَنْ أَقْتُلَهَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَحْسَنْتَ»،
ابوعبدالرحمٰن سے روایت ہے، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا تو فرمایا: اے لوگو! اپنی لونڈی، غلاموں کو حد لگاؤ۔ خواہ محصن ہوں یا نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی نے زنا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو حکم کیا اسے حد لگانے کا۔ دیکھا تو وہ ابھی جنی تھی۔ میں ڈرا کہیں اس کو کوڑے ماروں وہ مر جائے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپ نے اچھا کیا۔“ (جو ابھی کوڑے لگانا موقوف رکھا)۔
صحيح مسلم،كِتَاب الْحُدُودِ،7. باب تَأْخِيرِ الْحَدِّ عَنِ النُّفَسَاءِ:حديث 4450
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-23361.html


اللہ سبحانہ و تعالی ہی جانتا ہے کہ کس جلیل القدر صحابی نے اس کے ساتھ زنا کیا تھا، جس کے نتیجہ میں ایک زنا زادہ صحابی پیدا ہوا ۔
ناصبیوں کے سیدنا مغیرہ بن شعبہ
کے زنا کی داستان
ناصبیوں کے سیدنا مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی داستان:
چونکہ یہ بدبخت ممبر پر امیرالمومنین علیہ السلام کو گالیاں دیتا تھا لہٰذا ناصبیوں کے یہاں اس کی بڑی عزت ہے، اس نے بھی بصرہ میں اپنی دورِ حکومت میں ام جمیل نامی عورت سے زنا کیا تھا بخاری لکھتا ہے:
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا، وَأُولَئِكَ هُمُ الفَاسِقُونَ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا} [النور: 5] وَجَلَدَ عُمَرُ، أَبَا بَكْرَةَ، وَشِبْلَ بْنَ مَعْبَدٍ، وَنَافِعًا بِقَذْفِ المُغِيرَةِ، ثُمَّ اسْتَتَابَهُمْ، وَقَالَ: «مَنْ تَابَ قَبِلْتُ شَهَادَتَهُ»
عمر نے ابوبکرہ، شبل بن معبد (اس کا ماں جائے بھائی) اور نافع بن حارث کو حد لگائی مغیرہ پر تہمت رکھنے کی وجہ سے۔ پھر ان سے توبہ کرائی اور کہا جو کوئی توبہ کر لے اس کی گواہی قبول ہو گی۔
صحيح البخاري،كِتَاب الشَّهَادَاتِ،8. بَابُ شَهَادَةِ الْقَاذِفِ وَالسَّارِقِ وَالزَّانِي
https://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/T2/2648

بخاری نے اصل واقعہ کو حذف کیا لیکن دیگر محدسین نے واقعہ کو مکمل نقل کیا ہے:
بخاری نے بڑی چالاکی سے اصل واقعہ کو حذف کر دیا فقط نتیجہ بیان کیا
اصل داستان کو محدثین اہل سنت نے با اسناد صحیح اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔
چنانچہ البانی نے واقعہ کو طحاوی، ابن ابی شیبہ، بیہقی سے نقل کیا اور اسناد کی تصحیح بھی کی ۔
واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابی ابوبکرہ، و نافع ،اور شبل بن معبد نے عمر کے سامنے گواہی دی کہ انہوں نے مغیرہ بن شعبہ کو (ام جمیل کے ساتھ) زنا کرتے ہوئے دیکھا ، جبکہ چوتھے گواہ زیاد بن ابیہ سے عمر نے پوچھا کہ کیا تونے ایسے ہوتے ہوئے دیکھا جیسے صرمہ دانی میں سلای داخل ہوتی ہے اس نے کہا نہیں ایسے نہیں دیکھا مگر برے حال میں دیکھا، پس عمر یہ سن کر خوش ہوا کہ مغیرہ رجم ہونے سے بچ گیا پھر عمر نے ان تینوں گواہوں پر حد قذف (اسی کوڑے )لگائی اور توبہ کرنے کو کہا نافع اور شبل نے توبہ کر لی مگر صحابی ابوبکرہ اپنی بات پر ڈٹا رہا اور کہتا رہا وہ سچا ہے اس نے مغیرہ کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
(٢٣٦١) – (أثر ” أن عمر رضي الله عنه لما شهد عنده أبو بكرة، ونافع وشبل بن معبد، على المغيرة بن شعبة بالزنى حدهم حد القذف، لما تخلف الرابع زياد فلم يشهد ".
صحيح. أخرجه الطحاوي (2 / 286 – 287) من طريق السري بن يحيى قال: ثنا عبد الكريم بن رشيد عن أبي عثمان النهدي قال:
” جاء رجل إلى عمر بن الخطاب، رضي الله عنه فشهد على المغيرة بن شعبة فتغير لون عمر، ثم جاء آخر. فشهد فتغير لون عمر، ثم جاء آخر فشهد، فتغير لون عمر، حتى عرفنا ذلك فيه، وأنكر لذلك، وجاء آخر يحرك بيديه، فقال: ما عندك يا سلخ العقاب، وصاح أبو عثمان صيحة تشبهها صيحة عمر، حتى كربت أن يغشى على، قال: رأيت أمرا قبيحا، قال الحمد لله الذي لم يشمت الشيطان بأمة محمد (صلى الله عليه وسلم)، فأمر بأولئك النفر فجلدوا ".
قلت: وإسناده صحيح، ورجاله ثقات غير ابن رشيد وهو صدوق. وقد توبع، فقال ابن أبي شيبة (11 / 85 / 1): نا ابن علية عن التيمي عن أبي عثمان قال:
” لما شهد أبو بكرة وصاحباه على المغيرة جاء زياد، فقال له عمر: رجل لن يشهد إن شاء الله إلا بحق، قال: رأيت انبهارا، ومجلسا سيئا، فقال عمر: هل رأيت المرود دخل المكحلة؟ قال: لا، قال: فأمر بهم فجلدوا ".
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين.
وله طرق أخرى، منها عن قسامة بن زهير قال:
” لما كان من شأن أبي بكرة والمغيرة الذي كان – وذكر الحديث – قال: فدعا الشهود، فشهد أبو بكرة، وشبل بن معبد، وأبو عبد الله نافع، فقال عمر حين شهد هؤلاء الثلاثة: شق على عمر شأنه، فلما قدم زياد قال: إن تشهد إن شاء الله إلا بحق، قال زياد: أما الزنا فلا أشهد به، ولكن قد رأيت أمرا قبيحا، قال عمر: الله أكبر، حدوهم، فجلدوهم، قال: فقال أبو بكرة بعدما ضربه: أشهد أنه زان، فهم عمر رضي الله عنه أن يعيد عليه الجلد، فنهاه علي رضي الله عنه وقال: إن جلدته فارجم صاحبك، فتركه ولم يجلده ".
أخرجه ابن أبي شيبة وعنه البيهقي (8 / 334 – 335).
قلت: وإسناده صحيح.
ثم أخرج من طريق عيينة بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي بكرة، فذكر قصة المغيرة قال:
” فقدمنا على عمر رضي الله عنه، فشهد أبو بكرة ونافع، وشبل بن معبد، فلما دعا زيادا قال: رأيت منكرا، فكبر عمر رضي الله عنه ودعا بأبي بكرة، وصاحبيه، فضربهم، قال: فقال أبو بكرة يعنى بعدما حده: والله إني لصادق، وهو فعل ما شهد به، فهم بضربه، فقال على: لئن ضربت هذا فارجم هذا ".
وإسناده صحيح أيضا. وعيينة بن عبد الرحمن هو ابن جوشن الغطفاني وهو ثقة كأبيه.
الكتاب: إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل
المؤلف: محمد ناصر الدين الألباني (المتوفى: ١٤٢٠ هـ)
إشراف: زهير الشاويش [ت ١٤٣٤ هـ]
الناشر: المكتب الإسلامي – بيروت
الطبعة: الثانية ١٤٠٥ هـ – ١٩٨٥ م ، ج 8 ص 28
https://shamela.ws/book/22592/2634



اس روایت نے ناصبیوں کو حواس باختہ کر دیا، چناچہ وہ طرح طرح کی باطل توجیہات کے ذریعہ مغیرہ کو زنا سے پاک کرنے کی کوشش کرنے لگے مثلا: وہ عورت مغیرہ کی بیوی تھی جسے ان لوگوں نے ام جمیل سمجھ لیا، یا مغیرہ نے اس عورت سے لوگوں سے چھپاکر شادی کر رکھی تھی وغیرہ وغیرہ، ان باطل بہانوں کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہی تھا تو مغیرہ نے اپنے دفاع میں ان باتوں کا ذکر کیوں نہ کیا؟ خود ابوبکرہ جو ناصبیوں کے یہاں جلیل القدر صحابی شمار ہوتا ہے اس نے بغیر تحقیق کے آخر کیوں مغیرہ پر اتنی بڑی تہمت لگا دی کہ جس کے سبب قریب تھا وہ سنگسار کر کے مار دیا جائے، بلکہ ابوبکرہ کا تو یہ حال رہا کہ اس نے کبھی توبہ نہیں کی اور اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ،اب ابوبکرہ کے مقابل ناصبی ملاؤں کے باطل بہانے اور توجہیات کی کیا اوقات؟
Post Comment