ھندہ جگرخوار
- مسند امام احمد بن حنبل کی صحیح سند حدیث
- سند پر ناصبیوں کی طرف سے دو اشکال
- پہلے اعتراض کا جواب(عطاء کا دماغ خراب ہو گیا تھا لہذا اس کی حدیث سے احتجاج نہیں ہوگا)
- (۱)یحیی بن معین ” حماد بن سلمہ کی احادیث عطاء سے مستقیم ہوتی ہیں”
- (۲)یحیی بن معین” حماد بن سلمہ نے عطاء سے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا”
- (۳) فسوی ” عطاء ثقہ حجت ہے ، حماد بن سلمہ نے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا تھا”
- (۴)دارقطنی ” حماد بن سلمہ نے اس سے پہلے سفر میں سنا اور اس کے اس پہلے سفر( کی احادیث) صحیح ہیں "
- (۵)ابن جارود” حماد بن سلمہ کی اس سے احادیث اچھی ہیں "
- (۶)منذری ” عطاء بن السائب ثقہ ہے اور اس سے حماد بن سلمہ نے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا "
- (۷) ھیثمی ” حماد بن سلمہ نے عطاء سے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا "
- (۸)ابن کیال الشافعی ” حماد کی عطاء سے سماعت قدیم ہے "
- (۹) اساہی زین الدین عراقی ” ابن کیال الشافعی ” حماد کی عطاء سے سماعت قدیم ہے "
- دوسرٍے اعتراض کا جواب(سند میں انقطاع واقع ہوا ہے شعبی نے ابن مسعود کا زمانہ نہیں پایا)
- (۱)عجلی ” شعبی کی مراسیل صحیح ہوتی ہیں”
- (۲) یحیی بن معین ” ابراہیم کی مراسیل مجھے شعبی کی مراسیل سے زیادہ پسند ہیں "
- (۳) علی بن مدینی ” شعبی و سعید بن مسیب کی مراسیل مجھے داؤد بن حصین عن عکرمہ عن ابن عباس سے زیادہ پسند ہیں”
- جمہور علماء نواصب نے شعبی کی مراسیل کو معتبر تسلیم کیا ہے
- (۴)ابن حزم نے شعبی کی مراسیل سے احتجاج کیا ہے
- (۵)ترمذی نے شعبی کی مراسیل پر حسن کا حکم لگایا ہے
- (۶)ابوداود نے بغیر تردید اسکی مراسیل سے احتجاج کیا ہے
- ابوداود جس حدیث کے متعلق کچھ نہ کہے وہ صالح ہے
- (۷) نسائی نے بھی اسکی مراسیل سے احتجاج کیا ہے
- نسائی اپنی سنن میں فقط صحیح احادیث ہی روایت کرتا ہے
- خلاصہ
- (۸)حاکم نے بھی شعبی کی مراسیل کو تسلیم کیا
- (۹)نووی نے بھی شعبی کی مراسیل کو صحیح تسلیم کیا ہے
- (۱۰)ابن حجر نے شعبی کی مراسیل کو قبول کیا ہے
مسند امام احمد بن حنبل کی صحیح سند حدیث:
احمد بن حنبل نے با سند صحیح عبداللہ بن مسعود کی ایک طولانی حدیث نقل کی جس میں حضرت حمزہ علیہ السلام کی جان سوز شہادت کا ذکر ہے کہ آپ کے شکم کو پھاڑا گیا اور ہندہ نے آپ علیہ السلام کا کلیجہ نکال کر اسے چبایا اور اسے کھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیا اس (ہند ) نے اس میں سے کچھ کھایا تو لوگوں نے کہا نہیں پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ سبحانہ تعالی نے حمزہ میں سے کسی چیز کو آگ میں داخل نہیں کیا:
4414- حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ۔۔۔۔۔۔ قَالَ: فَنَظَرُوا فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُهُ، وَأَخَذَتْ هِنْدُ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا، فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْكُلَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَأَكَلَتْ مِنْهُ شَيْئًا ” قَالُوا: لَا. قَالَ: ” مَا كَانَ اللهُ لِيُدْخِلَ شَيْئًا مِنْ حَمْزَةَ النَّارَ ".
(کتاب کے محقق احمد محمد شاکر نے سند کو صحیح کہا ہے۔)
[مسند احمد, الكتاب: مسند الإمام أحمد بن حنبل
المؤلف: أحمد بن محمد بن حنبل (١٦٤ – ٢٤١ هـ)
المحقق: أحمد محمد شاكر
الناشر: دار الحديث – القاهرة
الطبعة: الأولى، ١٤١٦ هـ – ١٩٩٥ م, ج 4 ص 250/251]
https://shamela.ws/book/98139/1926#p1



محقق شعیب الارنووط نے سند کو حسن لغیرہ کہا ہے۔
[الكتاب: مسند الإمام أحمد بن حنبل
المؤلف: الإمام أحمد بن حنبل (١٦٤ – ٢٤١ هـ)
المحقق: شعيب الأرنؤوط [ت ١٤٣٨ هـ]- عادل مرشد – وآخرون
إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي
الناشر: مؤسسة الرسالةِ ، ج7 ص 419]
https://shamela.ws/book/25794/3333#p1
سند پر ناصبیوں کی طرف سے دو اشکال:
البتہ ناصبیوں کی جانب سے سند پر دو اشکال کئے گئے ہیں:
(1) :عطاء کا دماغ خراب ہو گیا تھا لہذا اس کی حدیث سے احتجاج نہیں ہوگا۔
(2) :سند میں انقطاع واقع ہوا ہے شعبی نے ابن مسعود کا زمانہ نہیں پایا۔
پہلے اعتراض کا جواب(عطاء کا دماغ خراب ہو گیا تھا لہذا اس کی حدیث سے احتجاج نہیں ہوگا):
ناصبیوں کے ائمہ علل نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ عطاء کے شاگرد حماد بن سلمہ نے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے اس سے احادیث کی سماعت کی لہٰذا حماد کی عطاء سے نقل کردہ احادیث صحیح ہیں۔
(۱)یحیی بن معین ” حماد بن سلمہ کی احادیث عطاء سے مستقیم ہوتی ہیں”:
- عباس دوری نے یحیی بن معین کی تحقیق نقل کی:
1465 – سَمِعت يحيى يقُول حَدِيث سُفْيَان وَشعْبَة بن الْحجَّاج وَحَمَّاد بن سَلمَة عَن عَطاء بن السَّائِب مُسْتَقِيم وَحَدِيث جرير بن عبد الحميد وَأَشْبَاه جرير لَيْسَ بِذَاكَ لتغير عَطاء فِي آخر عمره
میں نے یحیی سے سنا اس نے کہا کہ سفیان، شعبہ، حجاج و حماد بن سلمہ کی احادیث عطاء سے مستقیم ہوتی ہیں ۔
[تاريخ ابن معين رواية الدوري, الكتاب: التاريخ عن أبي زكريا يحيى بن معين – رواية أبي الفضل العباس بن محمد بن حاتم الدوري عنه
المؤلف: أبو زكريا يحيى بن معين
ضمن كتاب: يحيى بن معين وكتابه التاريخ
دراسة وترترتيب وتحقيق: الدكتور أحمد محمد نور سيف
الناشر: مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي – مكة المكرمة
الطبعة: الأولى، ١٣٩٩ – ١٩٧٩, ج3 ص 309]
https://shamela.ws/book/3508/299
- ابن عدی نے بھی ابن معین کا قول نقل کیا:
1522- عطاء بن السائب بن يزيد الثقفي كوفي، يُكَنَّى أبا زيد.
حَدَّثنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْمَدَائِنِيُّ، حَدَّثَنا إِبرَاهِيمُ بن أبي داود، حَدَّثَنا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنا أَبُو النعمان، عَن يَحْيى بن سَعِيد قَالَ سمع حماد من زيد عن عطاء بن السائب قبل أن يتغير.
حَدَّثنَا أحمد بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَحْرٍ، حَدَّثَنا عَبد اللَّه الدورقي، قَال: قَال يَحْيى بن مَعِين وحديث شُعْبَة وسفيان وحماد بن سلمة، عن عطاء بن السائب مستقيم وحديث جرير وأشباهه بعد تغير عطاء فِي آخر عُمَر
یحیی نے کہا عطاء کی احادیث جو سفیان، شعبہ، حماد بن سلمہ سے روایت کریں وہ مستقیم ہیں ۔
[الكامل في الضعفاء, الكتاب: الكامل في ضعفاء الرجال
المؤلف: أبو أحمد بن عدي الجرجاني (ت ٣٦٥ هـ)
تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود-علي محمد معوض
شارك في تحقيقه: عبد الفتاح أبو سنة
الناشر: الكتب العلمية – بيروت-لبنان
الطبعة: الأولى، ١٤١٨ هـ ١٩٩٧ م,ج 7 ص 362]
https://shamela.ws/book/12579/3289
(۲)یحیی بن معین” حماد بن سلمہ نے عطاء سے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا”:
- ابن جنید نے کہا :
(837) قال رجل ليحيى وأنا أسمع: روى جرير، عن حبيب بن أبي عمرة والشيباني أحاديث، كأنه يقول: منكرة، فقال يحيى: «حبيب بن أبي عمرة والشيباني ثقتان، لعل هذا من جرير» ، قال: وروى عن عطاء بن السائب؟ فقال يحيى: «إن جريرًا وابن فضيل وهؤلاء سمعوا من عطاء بن السائب بآخرة» ، فقلت ليحيى: كان عطاء بن السائب قد خلط؟ قال: «نعم» ، قال يحيى: «وحماد بن سلمة سمع من عطاء بن السائب قديمًا قبل الاختلاط» .
یحیی نے کہا حماد بن سلمہ نے عطاء سے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا ۔
[الكتاب: سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين
المؤلف: أبو زكريا يحيى بن معين بن عون بن زياد بن بسطام بن عبد الرحمن المري بالولاء، البغدادي (ت ٢٣٣هـ)
المحقق: أحمد محمد نور سيف
دار النشر: مكتبة الدار – المدينة المنورة
الطبعة: الأولى، ١٤٠٨هـ، ١٩٨٨م,ص 478]
https://shamela.ws/book/12698/205
(۳) فسوی ” عطاء ثقہ حجت ہے ، حماد بن سلمہ نے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا تھا”:
- فسوی لکھتا:
وَحَدَّثنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَعَطَاءٌ ثقة، حديثه حجة، ما روى عنه سفيان وشعبة وحماد بن سلمة، وسماع هؤلاء سماع قديم، وكان عطاء تغير بأخرة فرواية جرير وابن فضيل وطبقتهم ضعيفة.
عطاء ثقہ حجت ہے جبکہ اس سے سفیان، شعبہ و حماد بن سلمہ روایت کریں کیونکہ انہوں نے اس (کا دماغ خراب ہونے سے) پہلے سنا تھا۔
[الكتاب: المعرفة والتاريخ
المؤلف: أبو يوسف يعقوب بن سفيان الفسوي (ت ٢٧٧ هـ)
رواية: عبد الله بن جعفر بن درستويه النحوي
المحقق: أكرم ضياء العمري
إصدار: رئاسة ديوان الأوقاف، بالجمهورية العراقية
الناشر: مطبعة الإرشاد – بغداد
الطبعة: [الأولى للمحقق] ١٣٩٣ هـ – ١٩٧٤ م, ج 3 ص 84]
https://shamela.ws/book/12403/1635#p1
(۴)دارقطنی ” حماد بن سلمہ نے اس سے پہلے سفر میں سنا اور اس کے اس پہلے سفر( کی احادیث) صحیح ہیں "
- دارقطنی نے کہا :
478 – وقال الشيخُ: دخل عطاءُ بنُ السائبِ البصرةَ، وجلس؛ فسماعُ أيوبَ وحمادِ بنِ سلمةَ في الرحلة الأولى صحيحٌ، والرحلةُ الثانيةُ فيه اختلاطٌ.
عطاء بصرہ میں داخل ہوا اس سے ایوب و حماد بن سلمہ نے اس سے پہلے سفر میں سنا اور اس کے اس پہلے سفر( کی احادیث) صحیح ہیں
[الكتاب: سؤالات السلمي للدارقطني
المؤلف: محمد بن الحسين بن محمد بن موسى بن خالد بن سالم النيسابوري، أبو عبد الرحمن السلمي (ت ٤١٢هـ)
تحقيق: فريق من الباحثين بإشراف وعناية د/ سعد بن عبد الله الحميد و د/ خالد بن عبد الرحمن الجريسي
الطبعة: الأولى، ١٤٢٧ هـ ص 366]
https://shamela.ws/book/1680/356
١٠٩١ – حماد بن سلمة بن دينار البصري، أبو سلمة.
• قال السلمي: قال الدَّارَقُطْنِيّ: دخل عطاء بن السائب البصرة وجلس، فسماع أيوب وحماد بن سلمة في الرحله الأولى صحيح، والرحلة الثانية فيه اختلاط. (٤٤٣) .
[الكتاب: موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله
تأليف: مجموعة من المؤلفين (الدكتور محمد مهدي المسلمي – أشرف منصور عبد الرحمن – عصام عبد الهادي محمود – أحمد عبد الرزاق عيد – أيمن إبراهيم الزاملي – محمود محمد خليل)
الطبعة: الأولى، ٢٠٠١ م
الناشر: عالم الكتب للنشر والتوزيع – بيروت، لبنان,ج 1 ص 226]
https://shamela.ws/book/12764/1237
(۵)ابن جارود” حماد بن سلمہ کی اس سے احادیث اچھی ہیں ":
- ابن جارود نے کہا:
وقال بن الجارود في الضعفاء حديث سفيان وشعبة وحماد بن سلمة عنه جيد
ابن جارود نے( اپنی کتاب )الضعفاء میں کہا سفیان، شعبہ، حماد بن سلمہ کی اس سے احادیث اچھی ہیں۔
[الكتاب: تهذيب التهذيب
المؤلف: شهاب الدين أبو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢ هـ)
الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامية، حيدرآباد الدكن – الهند
الطبعة: الأولى، ١٣٢٥ – ١٣٢٧ ه ,ج 7 ص 207]
https://shamela.ws/book/3310/2977
(۶)منذری ” عطاء بن السائب ثقہ ہے اور اس سے حماد بن سلمہ نے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا ":
- منذری لکھتا ہے:
2441 – وَعَن معَاذ بن جبل رَضِي الله عَنهُ أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ أَلا أدلك على بَاب من أَبوَاب الْجنَّة قَالَ وَمَا هُوَ قَالَ لَا حول وَلَا قوَّة إِلَّا بِاللَّه
رَوَاهُ أَحْمد وَالطَّبَرَانِيّ إِلَّا أَنه قَالَ أَلا أدلك على كنز من كنوز الْجنَّة
وَإِسْنَاده صَحِيح إِن شَاءَ الله فَإِن عَطاء بن السَّائِب ثِقَة وَقد حدث عَنهُ حَمَّاد بن سَلمَة قبل اخْتِلَاطه
احمد و طبرانی نے روایت کیا ۔۔۔۔۔۔۔اور اس کی سند صحیح ہے۔ عطاء بن السائب ثقہ ہے اور اس سے حماد بن سلمہ نے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا ۔
[الكتاب: الترغيب والترهيب من الحديث الشريف
المؤلف: عبد العظيم بن عبد القوي بن عبد الله، أبو محمد، زكي الدين المنذري (ت ٦٥٦ هـ)
المحقق: إبراهيم شمس الدين
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
الطبعة: الأولى، ١٤١٧ ,ج 2 ص 291]
https://shamela.ws/book/6847/611
(۷) ھیثمی ” حماد بن سلمہ نے عطاء سے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا ":
- ہیثمی کہتا ہے:
16897 – «عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: ” أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى بَابٍ مِنْ أَبوَابِ الْجَنَّةِ؟ ". قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: ” لَا حَوْلَ وَلَا قوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» ".
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالطَّبَرَانِيُّ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: ” «أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ»؟ ".
وَرِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، وَقَدْ حَدَّثَ عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قبْلَ الِاخْتِلَاطِ.
حماد بن سلمہ نے عطاء سے اس کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا۔
[الكتاب: مجمع الزوائد ومنبع الفوائد
المؤلف: أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي (ت ٨٠٧ هـ)
المحقق: حسام الدين القدسي
الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة
عام النشر: ١٤١٤ هـ، ١٩٩٤ م ,ج 10 ص 97]
https://shamela.ws/book/61/3159
(۸)ابن کیال الشافعی ” حماد کی عطاء سے سماعت قدیم ہے ":
- ابن كيال الشافعي لکھتا ہے:
وقد استثنى الجمهور رواية حماد بن سلمة عنه أيضا قاله بن معين وأبو داود والطحاوي وحمزة الكناني وذكر ذلك عن بن معين بن عدي في الكامل وعباس الدوري وأبي بكر بن أبي خيثمة وقال الطحاوي وإنما حديث عطاء الذي كان منه قبل تغيره يؤخذ من أربعة لا من سواهم وهم شعبة وسفيان الثوري وحماد بن سلمة وحماد بن زيد وقال حمزة بن محمد الكناني في أماليه حماد بن سلمة قديم السماع من عطاء
جمہور نے (عطاء کی احادیث میں )حماد بن سلمہ کو بھی مستثنٰی کیا ہے جیسا کہ ابن معین، ابو داؤد، طحاوی، حمزہ کنانی نے کہا اور اسی طرح ابن معین سے ابن عدی نے کامل میں، عباس دوری و ابی بکر بن ابی خیثمہ نے ذکر کیا ہے، طحاوی نے کہا بے شک عطاء کی احادیث فقط چار افراد سے ہی لی جائیں گی ان کے سوا کسی اور سے نہیں لی جائیں گی، اور وہ شعبہ، سفیان، حماد بن سلمہ و حماد بن زيد ہیں، حمزہ بن محمد کنانی نے اپنی امالی میں کہا ہے کہ حماد کی عطاء سے سماعت قدیم ہے۔
[الكتاب: الكواكب النيرات في معرفة من اختلط من الرواة الثقات
المؤلف: أبو البركات، [بركات بن] محمد بن أحمد، المعروف بابن الكيال (٨٦٣ – ٩٢٩ هـ)
[وتصحّفَتْ وفاة المصنّف على غلاف المطبوع إلى ٩٣٩ خلافًا لما ذكره المحقق نفسُه في مقدمته. كما سُميّ على الغلاف وفي مقدمة المحقق: "محمدًا”! والذي في جميع مصادر المحقق التي ذَكرها: "بركات بن محمد”]
المحقق: عبد القيوم عبد رب النبي [ت ١٤٤١ هـ]
الطبعة: الأولى ١٤٠١ هـ – ١٩٨١ م
الناشر: مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي، بجامعة أم القرى، بالمملكة العربية السعودية
طبع: دار المأمون للتراث – دمشق، بيروت ص 325-326]
https://shamela.ws/book/309/282
(۹) اساہی زین الدین عراقی ” ابن کیال الشافعی ” حماد کی عطاء سے سماعت قدیم ہے ":
- اسا ہی زین الدین عراقی نے کہا ہے:
واستثنى الجمهور أيضا رواية حماد بن سلمة عنه أيضا فممن قاله يحيى بن معين وأبو داود والطحاوي وحمزة الكتاني فروى ابن عدى في الكامل عن عبد الله ابن الدورقي عن يحيى بن معين قال حديث سفيان وشعبة وحماد بن سلمة عن عطاء ابن السائب مستقيم وهكذا روى عباس الدوري عن يحيى بن معين وكذلك ذكر أبو بكر بن أبى خيثمة عن ابن معين فصحح رواية حماد بن سلمة عن عطاء وسيأتي نقل كلام أبى داود في ذلك.
وقال الطحاوي وإنما حديث عطاء الذي كان منه قبل تغيره يؤخذ من أربعة لا من سواهم وهم شعبة وسفيان الثوري وحماد بن سلمة وحماد بن زيد وقال حمزة بن محمد الكتاني في أماليه حماد بن سلمة قديم السماع من عطاء بن السائب
[الكتاب: التقييد والإيضاح شرح مقدمة ابن الصلاح
المؤلف: أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم بن الحسين بن عبد الرحمن بن أبي بكر بن إبراهيم العراقي (ت ٨٠٦ هـ)
المحقق: عبد الرحمن محمد عثمان
الناشر: محمد عبد المحسن الكتبي صاحب المكتبة السلفية بالمدينة المنورة
الطبعة: الأولى، ١٣٨٩ هـ/١٩٦٩ م,ص 443]
https://al-maktaba.org/book/7581/474
ہم نے طوالت کے سبب ان احادیث کا ذکر نہیں کیا جن کو حماد بن سلمہ نے عطاء سے روایت کیا اور نواصب نے ان کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
دوسرٍے اعتراض کا جواب(سند میں انقطاع واقع ہوا ہے شعبی نے ابن مسعود کا زمانہ نہیں پایا):
شعبی کے متعلق ناصبیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کی مراسیل بھی صحیح ہوتی ہیں:
(۱)عجلی ” شعبی کی مراسیل صحیح ہوتی ہیں”:
- عجلی ناصبی لکھتا ہے:
” مُرْسل الشّعبِيّ صَحِيح لَا يكَاد يُرْسل إِلَّا صَحِيحا ".
شعبی کی مرسل صحیح ہوتی ہے وہ وقت صحیح کو ہی مرسل روایت کرتا ہے.
[الكتاب: معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم
المؤلف: أبو الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح العجلى الكوفى (ت ٢٦١هـ)
المحقق: عبد العليم عبد العظيم البستوي
الناشر: مكتبة الدار – المدينة المنورة – السعودية
الطبعة: الأولى، ١٤٠٥ – ١٩٨٥, ج 2 ص 446]
https://shamela.ws/book/5825/748
(۲) یحیی بن معین ” ابراہیم کی مراسیل مجھے شعبی کی مراسیل سے زیادہ پسند ہیں ":
- عباس دوری نے کہا:
2899 – سَمِعت يحيى يَقُول مَرَاسِيل إِبْرَاهِيم أحب إِلَيّ من مَرَاسِيل الشّعبِيّ.
میں نے یحیی کو کہتے سنا کہ ابراہیم کی مراسیل مجھے شعبی کی مراسیل سے زیادہ پسند ہیں۔
[الكتاب: التاريخ عن أبي زكريا يحيى بن معين – رواية أبي الفضل العباس بن محمد بن حاتم الدوري عنه
المؤلف: أبو زكريا يحيى بن معين
ضمن كتاب: يحيى بن معين وكتابه التاريخ
دراسة وترترتيب وتحقيق: الدكتور أحمد محمد نور سيف
الناشر: مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي – مكة المكرمة
الطبعة: الأولى، ١٣٩٩ – ١٩٧٩,ج 2 ص14]
https://shamela.ws/book/3508/575
یہ موازنہ ابراہیم و شعبی کے درمیان ہے پس معلوم ہوا ابن معین کے نزدیک بھی شعبی کی مراسیل پسندیدہ تھیں ۔
بلکہ ابن مدینی تو بخاری و مسلم کے ثقہ راوی داؤد بن حصین کی عکرمہ سے اس کی حضرت ابن عباس علیہما الرحمہ کی متصل احادیث پر بھی فوقیت دیتا تھا۔
(۳) علی بن مدینی ” شعبی و سعید بن مسیب کی مراسیل مجھے داؤد بن حصین عن عکرمہ عن ابن عباس سے زیادہ پسند ہیں”:
علی بن مدینی نے کہا شعبی و سعید بن مسیب کی مراسیل مجھے داؤد بن حصین عن عکرمہ عن ابن عباس سے زیادہ پسند ہیں ۔
جیسا کہ عقیلی نے ابن مدینی سے نقل کیا ہے:
دَاوُدُ بْنُ حُصَيْنٍ مَدِينِيٌّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْبَلْخِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُصَيْنُ بْنُ شُجَاعٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ: مُرْسَلُ الشَّعْبِيِّ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
[الكتاب: الضعفاء الكبير
المؤلف: أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (ت ٣٢٢هـ)
المحقق: عبد المعطي أمين قلعجي
الناشر: دار المكتبة العلمية – بيروت
الطبعة: الأولى، ١٤٠٤هـ – ١٩٨٤م ,ج 2 ص 35]
https://al-maktaba.org/book/13041/1033
ابن مدینی سے ایسا ہی ابن رجب و ذہبی نے بھی نقل کیا ہے:
وقال الحسن بن شجاع البلخي: سمعت علي بن المديني يقول: مرسل الشعبي وسعيد بن المسيب أحب إلي من داود بن الحصين عن عكرمة عن ابن عباس.
[الكتاب: شرح علل الترمذي
المؤلف: زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، السَلامي، البغدادي، ثم الدمشقي، الحنبلي (ت ٧٩٥هـ)
المحقق: الدكتور همام عبد الرحيم سعيد
الناشر: مكتبة المنار – الزرقاء – الأردن
الطبعة: الأولى، ١٤٠٧هـ – ١٩٨٧م ,ج 1 ص 543]
https://shamela.ws/book/9552/485
وقال الحسين بن شجاع: سمعت علي بن المديني يقول: مرسل الشعبي وسعيد بن المسيب أحب إلى من داود عن عكرمة، عن ابن عباس.
[الكتاب: ميزان الاعتدال في نقد الرجال
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (ت ٧٤٨ هـ)
تحقيق: علي محمد البجاوي [ت ١٣٩٩ هـ]
الناشر: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت – لبنان
الطبعة: الأولى، ١٣٨٢ هـ – ١٩٦٣ م,ج 2 ص 5]
https://shamela.ws/book/1692/672
جمہور علماء نواصب نے شعبی کی مراسیل کو معتبر تسلیم کیا ہے:
بلکہ جمہور علماء نواصب نے شعبی کی مراسیل کو معتبر تسلیم کیا ہے۔
علماء نے اس امر کی تصریح کی ہے کہ شعبی نے ام المومنین حضرت ام سلمہ علیہا السلام سے کچھ نہیں سنا اس سے مرسل روایت کی:
(۴)ابن حزم نے شعبی کی مراسیل سے احتجاج کیا ہے:
- مغلطائ لکھتا ہے:
وفي "تاريخ نيسابور” : سئل يحيى بن يحيى الشعبي أدرك أم سلمة فكأنه قال لا.۔۔۔۔
وفي "العلل الكبرى” لابن المديني: الشعبي لم يسمع من زيد بن ثابت حدث عن قبيصة عنه، ولم يلق أبا سعيد الخدري، ولم يلق أم سلمة. ۔۔۔۔۔۔۔۔
ولما ذكر ابن حزم حديثه عن علي في الحيض احتج به وعادته لا يحتج إلا بصحيح من شرط [الصحبة] الاتصال.
تاریخ نیساپور میں ہے یحیی بن یحیی سے سوال ہوا کہ کیا شعبی نے جناب ام سلمہ کو پایا ہے تو اس نے کہا نہیں ۔
ابن مدینی نے( العلل الكبرى) میں اس کا انکار کیا ہے کہ شعبی نے ام سلمہ سے ملاقات کی ہو ۔
ابن حزم نے حیض کے متعلق (امیرالمومنین )علی (علیہ السلام ) کی (شعبی سے مروی حدیث ) سے احتجاج کیا ہے جبکہ اس کی عادت یہ ہے کہ وہ صحیح کے علاوہ کسی اور سے احتجاج نہیں کرتا اور صحیح کی شرط میں اتصال (ضروری) ہے۔
[الكتاب: إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال
المؤلف: علاء الدين مُغْلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري الحنفي (٦٨٩ – ٧٦٢ هـ)
المحقق: أبو عبد الرحمن عادل بن محمد – أبو محمد أسامة بن إبراهيم
الناشر: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر
الطبعة: الأولى، ١٤٢٢ هـ – ٢٠٠١ م ,ج 7 ص 130/131]
https://shamela.ws/book/36515/2538
اب جبکہ یہ ثابت ہو گیا شعبی کی حضرت ام المومنین ام سلمہ علیہاالسلام سے ملاقات نہیں ہوئی اس کے بعد بھی ائمہ نے ام المومنین ام سلمہ علیہاالسلام کی شعبی سے مروی احادیث کو صحیح تسلیم کیا ہے.
(۵)ترمذی نے شعبی کی مراسیل پر حسن کا حکم لگایا ہے:
- ترمذی نے اسی حدیث پر حسن صحیح کا حکم لگایا:
٣٤٢٧ – حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ قَالَ: بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ»، اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ، أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ، أَوْ نَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے تھے: «بسم الله توكلت على الله اللهم إنا نعوذ بك من أن نزل أو نضل أو نظلم أو نظلم أو نجهل أو يجهل علينا» ”شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، بھروسہ کرتا ہوں اللہ پر، اے اللہ تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ حق و صواب سے کہیں پھر نہ جاؤں، یا راہ حق سے بھٹکا نہ دیا جاؤں، یا میں کسی پر ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے، یا میں کسی کے ساتھ جاہلانہ برتاؤ کروں یا کوئی میرے ساتھ جاہلانہ انداز سے پیش آئے“۔
ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
[الكتاب: الجامع الكبير (سنن الترمذي)
المؤلف: أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي (ت ٢٧٩ هـ)
حققه وخرج أحاديثه وعلق عليه: بشار عواد معروف
الناشر: دار الغرب الإسلامي – بيروت
الطبعة: الأولى، ١٩٩٦ م,ج 5 ص 427]
https://shamela.ws/book/7895/5803
(۶)ابوداود نے بغیر تردید اسکی مراسیل سے احتجاج کیا ہے:
- ابو داؤد کے نزدیک بھی نیک ہے اپنی سنن میں بغیر کسی تردید کے ایسی ہی سند سے روایت سے احتجاج کیا ہے:
٥٠٩٤ – حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: مَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا رَفَعَ طَرْفَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ، أَوْ أُضَلَّ، أَوْ أَزِلَّ، أَوْ أُزَلَّ، أَوْ أَظْلِمَ، أَوْ أُظْلَمَ، أَوْ أَجْهَلَ، أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ»
[حكم الألباني] : صحيح
[الكتاب: سنن أبي داود
المؤلف: أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني (ت ٢٧٥ هـ)
المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد [ت ١٣٩٢ هـ]
الناشر: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت,ج 4 ص 325]
https://shamela.ws/book/1726/6956
ابوداود جس حدیث کے متعلق کچھ نہ کہے وہ صالح ہے:
ابو داؤد اپنی سنن کی احادیث کے متعلق لکھتا ہے کہ جس کے متعلق وہ کچھ نہ کہے وہ صالح (اچھی ) ہے:
"ما لم أذكر فيه شيئاً فهو صالح”
[الكتاب: رسالة أبي داود إلى أهل مكة وغيرهم في وصف سننه
المؤلف: أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السَّجِسْتاني (ت ٢٧٥هـ)
المحقق: محمد الصباغ
الناشر: دار العربية – بيروت , ص 27]
https://shamela.ws/book/6013/7
(۷) نسائی نے بھی اسکی مراسیل سے احتجاج کیا ہے:
- نسائی نے بھی اسی سند سے مروی احادیث سے احتجاج کیا ہے:
٥٤٨٦ – أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ قَالَ: بِاسْمِ اللهِ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَزِلَّ أَوْ أَضِلَّ، أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ، أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ».
[الكتاب: سنن النسائي
(مطبوع مع شرح السيوطي وحاشية السندي)
صححها: جماعة، وقرئت على الشيخ: حسن محمد المسعودي.
الناشر: المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة
الطبعة: الأولى، ١٣٤٨ هـ – ١٩٣٠ م ,ج 8 ص 268] https://shamela.ws/book/829/7948
٥٤٨٦ – أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ قَالَ: بِاسْمِ اللهِ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَزِلَّ أَوْ أَضِلَّ، أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ، أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ».
[الكتاب: سنن النسائي
(مطبوع مع شرح السيوطي وحاشية السندي)
صححها: جماعة، وقرئت على الشيخ: حسن محمد المسعودي.
الناشر: المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة
الطبعة: الأولى، ١٣٤٨ هـ – ١٩٣٠ م,ج 8 ص 268]
https://shamela.ws/book/829/7948
نسائی اپنی سنن میں فقط صحیح احادیث ہی روایت کرتا ہے:
نسائی اپنی سنن میں فقط صحیح احادیث ہی روایت کرتا ہے۔
اسی سبب ناصبی علماء کی ایک بڑی جماعت نے اس کتاب کو صحیح تسلیم کیا ہے
- ابن حجر لکھتا ہے:
قوله : "أطلق الخطيب والسلفي الصحة على كتاب النسائي”.
قلت: وقد أطلق عليه – أيضا – اسم الصحة أبو علي النيسابوري. وأبو أحمد بن عدي وأبو الحسن الدارقطني وابن منده وعبد الغني بن سعيد وأبو يعلى الخليلي وغيرهم.
وأطلق الحاكم اسم الصحة عليه وعلى كتابي أبي داود والترمذي كما سبق
وقال أبو عبد الله بن مندة: "الذين خرجوا الصحيح أربعة: البخاري ومسلم وأبو داود والنسائي”.
وأشار إلى مثل ذلك أبو علي ابن السكن.
وما حكاه ابن الصلاح عن الباوردي أن النسائي يخرج أحاديث من لم يجمع على تركه، فإنما أراد بذلك إجماعا خاصا.
طبقات النقاد:
وذلك أن كل طبقة من نقاد الرجال لا تخلو من متشدد ومتوسط.
فمن الأولى: شعبة وسفيان الثوري، وشعبة أشد منه.
ومن الثانية: يحيى القطان وعبد الرحمن بن مهدي، ويحيى أشد من عبد الرحمن.
ومن الثالثة: يحيى بن معين وأحمد، ويحيى أشد من أحمد.
ومن الرابعة: أبو حاتم والبخاري، وأبو حاتم أشد من البخاري.
وقال النسائي: "لا يترك الرجل عندي حتى يجتمع الجميع على تركه”.
فأما إذا وثقه ابن مهدي وضعفه يحيى القطان مثلا فإنه لا يترك لما عرف من تشديد يحيى ومن هو مثله في النقد. وإذا تقرر ذلك ظهر أن الذي يتبادر إلى الذهن من أن مذهب النسائي في الرجال مذهب متسع ليس كذلك، فكم من رجل أخرج له أبو داود والترمذي تجنب النسائي إخراج حديثه. كالرجال الذين ذكرنا قبل أن أبا داود
يخرج أحاديثهم1 وأمثال من ذكرنا، بل تجنب النسائي إخراج حديث جماعة من رجال الصحيحين.
وحكى أبو الفضل بن طاهر قال: "سألت سعد بن علي الزنجاني عن رجل فوثقه فقلت له: إن النسائي لم يحتج به فقال: يا بني! إن لأبي عبد الرحمن شرط في الرجال شرط أشد من شرط البخاري ومسلم”.
وقال أبو بكر البرقاني الحافظ في جزء له معروف: "هذه أسماء رجال تكلم فيهم النسائي ممن أخرج له الشيخان في صحيحيهما سألت عنهم أبا الحسن الدارقطني فدون كلامه في ذلك”…….وقال محمد بن معاوية الأحمر الراوي عن النسائي ما معناه قال النسائي: "كتاب السنن كله صحيح وبعضه معلول” إلا أنه لم يبين علته والمنتخب منه المسمى بالمجتبى صحيح كله.
ابن طلاح کا قول کہ خطیب اور سلفی نے کتاب نسائی پر صحیح کا اطلاق کیا ۔
میں (ابن حجر )کہتا ہوں اور اسی طرح ابو علی نیسابوری، ابو احمد بن عدی، ابو الحسن دارقطنی، ابن مندہ، عبدالغنی بن سعید و ابو یعلی خلیلی ، وغیرہ نے بھی اس (سنن نسائی )پر صحیح کا اطلاق کیا ہے اور حاکم نیسابوری نے بھی اسے صحیح کا نام دیا ،ابو عبداللہ بن مندہ نے کہا وہ افراد جنہوں نے صحیح کا اخراج کیا چار ہیں بخاری، مسلم،ابو داؤد، نسائی، اور اسی طرح ابو علی بن سکن نے کہا۔
البتہ جو حکایت ابن طلاح نے البارودی سے کی ہے کہ نسائی ان افراد سے احادیث لیتا ہے کہ جن کے ترک پر اجماع نہ ہو، پس اس سے اس کا خاص اجماع مراد ہے۔
کیونکہ نقاد رجال کا ہر طبقہ ان دو اصناف سے خالی نہیں یا متشدد (سخت ) ہیں یا درمیانی۔
جیسے پہلے طبقہ میں شعبہ، سفیان ثوری ہیں تو شعبہ سفیان سے زیادہ سخت ہے۔
دوسرا طبقہ یحیی قطان و عبدالرحمن بن مہدی کا ہے یحیی، عبدالرحمن سے زیادہ سخت ہے ۔
تیسرا طبقہ یحیی بن معین و احمد کا ہے اور یحیی، احمد سے زیادہ سخت ہے۔
چوتھا طبقہ ابو حاتم و بخاری کا ہے اور ابو حاتم بخاری سے زیادہ سخت ہے۔
اور نسائی کا یہ کہنا کہ میرے نزدیک راوی جب تک قابل ترک نہیں ہوتا جب تک سب کے سب اس کے ترک پر جمع نہ ہو جائیں ۔
پس جب ابن مہدی توثیق کرے اور یحیی قطان تضعيف کرے تو وہ اس (راوی)کو ترک نہیں کرتا کیونکہ وہ یحیی کے متشدد ہونے یا اسی کے جیسے دوسرے افراد کو جانتا ہے۔
اس سے کسی کے ذہن میں یہ آئے کہ اس مسئلہ میں نسائی کا طریقہ گنجائش والا ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے ،پس کتنے ہی ایسے راوی ہیں جن سے ابو داؤد و ترمذی نے احادیث لیں مگر نسائی نے ان کی احادیث سے اجتناب کیا بلکہ نسائی نے تو صحیحین کے راویوں کی ایک جماعت سے بھی اجتناب کیا ہے۔
ابو الفضل بن طاہر نے حکایت کی ہے کہ میں نے سعد بن علی زنجانی سے ایک راوی کے متعلق سوال کیا تو اس نے اس راوی کی توثیق کی تو میں نے کہا کہ نسائی نے تو اس سے احتجاج نہیں کیا ہے پس اس نے کہا :”ائے میرے بیٹے ابو عبدالرحمن (نسائی) کی شرط رجال میں بخاری و مسلم کی شرطوں سے بھی زیادہ سخت ہے اور ابوبکر برقانی نے اپنے معروف جزء میں کہا یہ ان افراد کے نام ہیں جن پر نسائی نے کلام کیا ہے جبکہ شیخین نے اپنی صحیحین میں ان سے احادیث لی ہیں۔
اور نسائی کے (شاگرد سنن کے راوی ) راوی محمد بن معاویہ الاحمر نے کہا کہ نسائی کے قول کا کہ کتاب سنن سب کی سب صحیح ہے اور بعض معلول ہے کا معنی یہ ہے کہ جس کی وہ علت بیان نہ کرے اور اس کو مجتبی میں انتخاب کرے تو وہ سب کی سب صحیح ہے۔
الكتاب: النكت على كتاب ابن الصلاح
المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢هـ)
المحقق: ربيع بن هادي عمير المدخلي
الناشر: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية
الطبعة: الأولى، ١٤٠٤هـ/١٩٨٤م , ج 1 ص 481/484
https://shamela.ws/book/8316/455
خود ابن حجر کی رائے بھی یہی تھی کہ نسائی جس روایت پر سکوت کرے وہ نسائی کے نزدیک صحیح ہوتی تھی۔
- ابن عراقی لکھتا ہے:
وَرَأَيْت بِخَط الْحَافِظ، ابْن حجر على هَامِش مُخْتَصر الموضوعات لِابْنِ درباس مَا نَصه: حَدِيث أبي أُمَامَة هَذَا أخرجه النَّسَائِيّ وَلم يعلله، وَذَلِكَ يَقْتَضِي صِحَّته،
(ابو الحسن عراقی نے )کہا کہ میں نے (کتاب) مختصر الموضوعات لابن درباس کے حاشیہ پر ابن حجر کے ہاتھ سے یہ عبارت لکھی ہوئی دیکھی کہ ابو امامہ کی اس حدیث کو نسائی نے نقل کیا ہے اور اس میں کوئی علت بھی ذکر نہیں کی پس یہ اس کی دلیل ہے کہ (حدیث نسائی کہ نزدیک )صحیح ہے۔
[الكتاب: تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة
المؤلف: نور الدين، علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن ابن عراق الكناني (ت ٩٦٣هـ)
المحقق: عبد الوهاب عبد اللطيف , عبد الله محمد الصديق الغماري
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
الطبعة: الأولى، ١٣٩٩ هـ , ج1 ص 288]
https://shamela.ws/book/1432/286
- ذہبی کے نزدیک بھی سنن نسائی صحیح شمار ہوتی تھی، لکھتا ہے:
أحمد بن شعيب الحافظ الحجة أبو عبد الرحمن النسائي صاحب الصحيح .
احمد بن شعيب، حافظ ،حجت، صاحب صحیح تھا ۔
[الكتاب: الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (ت ٧٤٨هـ)
المحقق: محمد عوامة أحمد محمد نمر الخطيب
الناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية – مؤسسة علوم القرآن، جدة
الطبعة: الأولى، ١٤١٣ هـ – ١٩٩٢ م , ج 1 ص 195]
https://shamela.ws/book/2171/188
خلاصہ:
ان تمام عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ (1)خطیب بغدادی( 2)أبو طاهر عماد الدين أحمد بن محمد بن إبراهيم الأصبهاني السلفي( 3) ابو علی الحسين بن علي بن يزيد بن داود النيسابوري( 4) أبو أحمد عبد الله بن عدي بن عبد الله بن محمد الجرجاني( 5) أبو الحسن الدارقطني( 6) أبو عبد الله مُحمد بن إسحاق بن محمد بن يحيى بن منده العبدي الأصبهاني( 7) أبو محمد عبد الغني بن سعيد ابن علي بن سعيد بن بشر بن مروان( 7) أبو يعلى خليل بن عبد الله بن أحمد بن إبراهيم ابن الخليل القزويني الخليلي( 8) ابو عبدالله الحاكم النيسابوري( 9) أبو علي سعيد بن عثمان بن سعيد بن السكن( 10) أبو بكر محمد بن معاوية بن عبد الرحمن بن معاوية الأحمر (11) ذہبی( 12) ابن حجر ان سب کے نزدیک نسائی کی سنن مجتبی صحیح شمار ہوتی تھی۔
(۸)حاکم نے بھی شعبی کی مراسیل کو تسلیم کیا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ إِمْلَاءً وَقِرَاءَةً ، ثَنَا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، ثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ قَالَ : ” بِسْمِ اللَّهِ ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَزِلَّ ، أَوْ أَضِلَّ ، أَوْ أَظْلِمَ ، أَوْ أُظْلَمَ ، أَوْ أَجْهَلَ ، أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ ” . ” هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ ، وَرُبَّمَا تَوَهَّمَ مُتَوَهِّمٌ أَنَّ الشَّعْبِيَّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ ، فَإِنَّهُ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ ، وَأُمِّ سَلَمَةَ جَمِيعًا ، ثُمَّ أَكْثَرَ الرِّوَايَةَ عَنْهُمَا جَمِيعًا ” .
[المستدرك على الصحيحين
الحاكم – أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوري
دار المعرفة
سنة النشر: 1418هـ / 1998م , ج 2 ص 202]
البتہ ساتھ میں یہ دعوٰی بھی کر دیا کہ شعبی جناب ام سلمہ اور عائشہ کے پاس جاتا تھا مگر خود ہی اپنی بات کا رد بھی کیا اور کہا شعبی نے عائشہ سے کچھ بھی نہیں سنا:
وقد خالف ذلك في "علوم الحديث ” له، فقال: لم يسمع الشعبي من عائشة”
[[نتائج الأفكار في تخريج أحاديث الأذكار
تأليف :الحافظ ابن حجر العسقلاني
(773 – 852 هـ)
تحقيق :حمدي عبد المجيد السلفي
دار ابن كثير: الطبعة الثانية
1429 هـ – 2008 م , ج1 ص 160]
https://ketabonline.com/ar/books/27027/read?part=1&page=157&index=4398175
(۹)نووی نے بھی شعبی کی مراسیل کو صحیح تسلیم کیا ہے:
نووی نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے:
٩/٨٢-التَّاسِعُ: عَنْ أُمِّ المُؤمِنِينَ أُمِّ سلَمَةَ، واسمُهَا هِنْدُ بنْتُ أَبي أُمَيَّةَ حُذَيْفةَ المخزومية رضي اللَّهُ عنها أنَّ النبيَّ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم كانَ إذَا خَرجَ مِنْ بيْتِهِ قالَ: "بِسْمِ اللَّهِ، توكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أعوذُ بِكَ أنْ أَضِلَّ أَوْ أُضَلَّ، أَوْ أَزِلَّ أوْ أُزلَّ، أوْ أظلِمَ أوْ أُظلَم، أوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجهَلَ عَلَيَّ "حديثٌ صحيحٌ رواه أبو داود والتِّرمذيُّ وَغيْرُهُمَا بِأسانِيدَ صحيحةٍ. قالَ التِّرْمذي: حديثٌ حسنٌ صحيحٌ، وهذا لَفظُ أبي داودَ.
[الكتاب: رياض الصالحين
المؤلف: أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (ت ٦٧٦ هـ)
المحقق: شعيب الأرنؤوط [ت ١٤٣٨ هـ]
الناشر: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان
الطبعة: الثالثة، ١٤١٩ هـ/١٩٩٨ م , ص 61]
https://al-maktaba.org/book/12014/41#p1
(۱۰)ابن حجر نے شعبی کی مراسیل کو قبول کیا ہے:
ابن حجر نے ابن مدینی کے قول کو نقل کیا کہ شعبی نے جناب ام سلمہ سے کچھ نہیں سنا:
عن علي بن المديني أنه قال في علله: إن الشعبي لم يسمع من أم سلمة.
[نتائج الأفكار في تخريج أحاديث الأذكار
تأليف :الحافظ ابن حجر العسقلاني
(773 – 852 هـ)
تحقيق :حمدي عبد المجيد السلفي
دار ابن كثير: الطبعة الثانية
1429 هـ – 2008 م , ج1 ص 160]
https://ketabonline.com/ar/books/27027/read?part=1&page=157&index=4398175
اس کے بعد بھی شعبی کی جناب ام سلمہ سے روایت کردہ حدیث کو حسن تسلیم کیا
هذا حديث حسن
[نتائج الأفكار في تخريج أحاديث الأذكار
تأليف :الحافظ ابن حجر العسقلاني
(773 – 852 هـ)
تحقيق :حمدي عبد المجيد السلفي
دار ابن كثير: الطبعة الثانية
1429 هـ – 2008 م ,ج1 ص 157]
https://ketabonline.com/ar/books/27027/read?part=1&page=154&index=4398175
Post Comment