انھدام جنت البقیع (۸ شوال)

فہرست:

8 شوال سنہ 1345 ہجری مطابق 21 اپریل 1926 عیسوی کو الله سبحانہ تعالی و اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بدترین دشمن آل سعود نے قبرستان جنت البقیع میں اہل بیت علیہم السلام اور صحابہ و صالحین کے مزارات کو منہدم کیا تھا اور اس پر ان کی دلیل ایک جھوٹی روایت تھی جس پر ان کا باطل دین ٹکا ہوا ہے جسکو ان کے ہمنوا نواصب آج بھی بڑے آب و تاب سے بیان کرتے ہیں اور اس کے سبب مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔

مسلم نے ابو الھیاج سے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل کی ہے :

93 – (969) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، – قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: – حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي الْهَيَّاجِ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ»

ابی الھیاج اسدی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آگاہ رہو میں تم کو اس کام کے لئے بھیجتا ہوں جس کے لئے مجھ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا وہ یہ کہ میں کسی تصویر کو باقی نہ چھوڑوں مگر یہ کہ اسے مٹا دوں اور نہ کسی اونچی اور ابھری ہوئی قبر کو ،مگر یہ کہ اسے (زمین) کے برابر کر دوں ۔

[صحیح مسلم، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟْﺠَﻨَﺎﺋِﺰِ ،ﺑﺎﺏ ﺍﻷَﻣْﺮِ ﺑِﺘَﺴْﻮِﻳَﺔِ ﺍﻟْﻘَﺒْﺮِ ،حدیث نمبر 2243]

https://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=53&ID=2719

اسی روایت کو ابوداؤد نے اپنی سنن، ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻲ ﺩﺍﻭﺩ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺠﻨﺎﺋﺰ – ﺑﺎﺏ ﻓﻲ ﺗﺴﻮﻳﺔ ﺍﻟﻘﺒﺮ ‏حدیث نمبر 3218، نسائ نے اپنی سنن، ﺳﻨﻦ ﻧﺴﺎﺋﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺠﻨﺎﺋﺰ ﺑﺎﺏ ﺗﺴﻮﻳﺔ ﺍﻟﻘﺒﻮﺭ ﺇﺫﺍ ﺭﻓﻌﺖ، حدیث نمبر 2033 اور ترمذی نے اپنی سنن، سنن ترمذی ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺠﻨﺎﺋﺰ ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ،ﺑﺎﺏ ﻣَﺎ ﺟَﺎﺀَ ﻓِﻲ ﺗَﺴْﻮِﻳَﺔِ ﺍﻟْﻘُﺒُﻮﺭ حدیث نمبر 1049 پر منقطع سند کے ساتھ روایت کیا ہے (ترمذی کی سند میں ابو وائل ساقط ہو گیا ہے چنانچہ اس کی سند یوں ہے ﺳﻔﻴﺎﻥ ، ﻋﻦ ﺣﺒﻴﺐ ﺑﻦ ﺍﺑﻲ ﺛﺎﺑﺖ ، ﻋﻦ ﺍﺑﻲ ﻭﺍﺋﻞ ، ﺍﻥ ﻋﻠﻴﺎ ، ﻗﺎﻝ ﻻﺑﻲ ﺍﻟﻬﻴﺎﺝ ﺍﻻﺳﺪﻱ )

ان کے علاوہ بھی دیگر ناصبی محدثین نے اس روایت کواپنی کتب میں نقل کیا ہے مگر سب کی اسناد میں شدید قسم کی خرابی پائی جاتی ہے جس کے سبب روایت غیر قابل احتجاج ہے۔

حدیث کا تنہا راوی حبیب بن ابی ثابت ہے:

ہمارے علم میں اس روایت کو ابو وائل سے روایت کرنے والا تنہا راوی حبیب بن ابی ثابت ہے اور اس نے روایت عن سے کی ہے علمائے اہل سنت نے حبیب کو بغیر کسی اختلاف کے مدلس مانا ہے اور ابن حجر نے اس کو تیسرے طبقہ میں رکھا ہے، تیسرے طبقے کے مدلسین وہ ہیں جن کی "عن” والی روایات مردود ہوتی ہیں ان کی وہی روایات قابل قبول ہیں جن میں انہوں نے سماعت کی تصریح کی ہو۔

(۱)ابن حجر حبیب ابن ابی ثابت کو مدلس کہا:

– ﻉ ﺣﺒﻴﺐ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺛﺎﺑﺖ ﺍﻟﻜﻮﻓﻲ ﺗﺎﺑﻌﻲ ﻣﺸﻬﻮﺭ ﻳﻜﺜﺮ ﺍﻟﺘﺪﻟﻴﺲ ﻭﺻﻔﻪ ﺑﺬﻟﻚ ﺑﻦ ﺧﺰﻳﻤﺔ ﻭﺍﻟﺪﺍﺭﻗﻄﻨﻲ ﻭﻏﻴﺮﻫﻤﺎ ﻭﻧﻘﻞ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ

ﻋﻦ ﺍﻷﻋﻤﺶ ﻋﻨﻪ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ ﻟﻮ ﺃﻥ ﺭﺟﻼ ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﻨﻚ ﻣﺎ ﺑﺎﻟﻴﺖ ﺍﻥ ﺭﻭﻳﺘﻪ ﻋﻨﻚ ﻳﻌﻨﻲ ﻭﺃﺳﻘﻄﺘﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﻮﺳﻂ

حبیب بن ابی ثابت کوفی تابعی ہے بہت زیادہ تدلیس کرنے والا تھا ابن خزیمہ اور دارقطنی وغیرہ نے اس کو اس عیب سے موصوف کیا ہے۔

[ﻛﺘﺎﺏ ﻃﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﻤﺪﻟﺴﻴﻦ، للحافظ العلامة الكبير أحمد بن علي بن محمد الشهير بابن حجر العسقلاني تحقيق وتعليق د. عاصم بن عبد الله القريوني أستاذ مساعد بكلية الحديث والدراسات الاسلامية بالجامعة الاسلامية – بالمدينة المنورة، الطبعة الأولى حقوق الطبع محفوظة شارع القاروق بجانب جميعة المركز الاسلامي مكتبة المنار، ص 37]

http://www.shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/3340_%D8%B7%D8%A8%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AF%D9%84%D8%B3%D9%8A%D9%86-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%AD%D8%AC%D8%B1/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_35

(۲)سبط ابن عجمی نے بھی حبیب بن ابی ثابت کومدلس لکھا ہے:

ﺣﺒﻴﺐ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺛﺎﺑﺖ ﻗﺎﻝ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﺪﻟﺴﺎ

[كتاب التبيين لأسماء المدلسين لسبط ابن العجمي الشافعي تحقيق الأستاذ يحيى شفيق دار الكتب العلمية بيروت – لبنان،الطبعة الأولى 1406 ه‍ – 1986 م،ص 19]

http://www.shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/3315_%D8%A7%D9%84%D8%AA%D8%A8%D9%8A%D9%8A%D9%86-%D9%84%D8%A3%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AF%D9%84%D8%B3%D9%8A%D9%86-%D8%B3%D8%A8%D8%B7-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%AC%D9%85%D9%8A/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_19

(۳)بیہقی نے بھی مدلس تسلیم کیا ہے:

فَقَدْ كَانَ يُدَلِّسُ

[السنن الكبرى ،المؤلف: أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، أبو بكر البيهقي (المتوفى: 458هـ) ،المحقق: محمد عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنات
الطبعة: الثالثة، 1424 هـ – 2003 م،ج 3 ص 456]

https://ar.lib.efatwa.ir/42094/3/456

‏ابن خزیمہ، دارقطنی، ابن حبان، بیہقی، ابن حجر، سبط ابن عجمی کے نزدیک حبیب مدلس ہے اور کسی نے بھی ان کی مخالفت نہیں کی لہٰذا جب تک سماعت کی تصریح نہ ہو روایت مردود ہے۔

مدلس کون ہوتا ہے:

مدلس اس راوی کو کہتے ہیں جو حدیث کے عیب کو چھپا کر اس کے حسن کو نمایاں کرتا ہے ،مثلا کسی سے حدیث نا سنی ہو مگر یوں ظاہر کرے کہ اس نے کسی سے یہ حدیث سنی ہو ،یا کسی ضعیف راوی سے حدیث سنی ہو مگر یہ ظاہر کرے کہ اس ضعیف راوی سے نہیں سنی ہے،یوں راوی حدیث کی اصلیت کے بارے میں قاری کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

تدلیس کی مذمت میں ائمہ نواصب کے بہت سخت اقوال موجود ہیں چنانچہ خطیب نے ناصبیوں کے امیرالمومنین فی الحدیث شعبہ کے مختلف اقوال نقل کئے ہیں:

"الشافعي يقول قال شعبة بن الحجاج التدليس أخو الكذب… ثنا غندر قال سمعت شعبة يقول التدليس في الحديث أشد من الزنا ولان أسقط من السماء أحب إلي من أن دلس … المعافى يقول سمعت شعبة يقول: لان أزني أحب إلي من أدلس”‏

شافعی نے کہا کہ شعبہ نے کہا تدلیس جھوٹ کا بھائی ہے، غندر کا بیان ہے میں نے شعبہ سے سنا کہ اس نے کہا کہ حدیث میں تدلیس زنا سے بھی زیادہ بری ہے ،مجھے آسمان سے زمین پر گرنا زیادہ پسند ہے حدیث میں تدلیس کرنے کی نسبت، معافی کا بیان ہے کہ شعبہ نے کہا مجھے زنا کرنا حدیث میں تدلیس کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

[ﺍﻟﻜﻔﺎﻳﺔ ﻓﻲ ﻋﻠﻢ ﺍﻟﺮﻭﺍﻳﺔ، الامام الحافظ المحدث أبى أحمد بن علي المعروف بالخطيب البغدادي المتوفى سنة 463 ه‍ تحقيق وتعليق الدكتور أحمد عمر هاشم أستاذ الحديث بجامعة الأزهر وعميد كلية أصول الدين بالزقازيق الناشر دار الكتاب العربي ، جميع الحقوق محفوظة لدار الكتاب العربي بيروت الطبعة الأولى 1405 ه‍ – 1985 م ، ﺹ 395]

http://www.shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/2158_%D8%A7%D9%84%D9%83%D9%81%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D9%81%D9%8A-%D8%B9%D9%84%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%AE%D8%B7%D9%8A%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%BA%D8%AF%D8%A7%D8%AF%D9%8A/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_385

دوسرا راوی (ابو وائل شقیق بن سلمة)دشمن امیرالمومنین (ع)ہے:

دوسرا راوی (ابو وائل شقیق بن سلمة) ہے یہ دشمن خدا منافق تھا پکا دشمن امیرالمومنین علیہ السلام تھا ،اس کا یہ باطل عقیدہ تھا کہ نعوذبااللہ امیرالمومنین علیہ السلام بدعتی تھے ۔

(۱)امیرالمومنین (ع)کو بدعتی کہتا تھا:

چنانچہ بلاذری نے با سند صحیح اس کا قول نقل کیا ہے:

ﻋﻦ ﺍﻟﻤﺪﺍﺋﻨﻲ ﻋﻦ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﺣﺼﻴﻦ ﻗﻠﺖ ﻷﺑﻲ ﻭﺍﺋﻞ : ﺃﻋﻠﻲ ﺃﻓﻀﻞ ﺃﻡ ﻋﺜﻤﺎﻥ؟ ﻗﺎﻝ : ﻋﻠﻲ ﺇﻟﻲ ﺃﻥ ﺃﺣﺪﺙ، ﻓﺄﻣّﺎ ﺍﻵﻥ ﻓﻌﺜﻤﺎﻥ .

حصین کا بیان ہے کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا کہ علی علیہ السلام افضل ہیں یا عثمان؟ اس نے کہا علی نے جب تک کہ بدعت انجام نہیں دی تھی، مگر اب عثمان ہے۔

[جمل من أنساب الأشراف،المؤلف: أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري (المتوفى: 279هـ)
تحقيق: سهيل زكار ورياض الزركلي
الناشر: دار الفكر – بيروت
الطبعة: الأولى، 1417 هـ – 1996 م ،ﺝ 5 ﺹ 484]

https://lib.eshia.ir/40503/5/484

(۲) امیرالمومنین علیہ السلام کو گالیاں دیتا تھا :

نہ فقط آپ علیہ السلام کو بدعتی مانتا تھا بلکہ گالیاں بھی دیتا تھا ابن الحدید معتزلی لکھتا ہے:

ﻛﺎﻥ ﻋﺜﻤﺎﻧﻴﺎً ﻳﻘﻊ ﻓﻲ ﻋﻠﻲ ‏

وہ عثمانی تھا اور علی علیہ السلام کو گالیاں دیتا تھا۔

[شرح نهج البلاغة،تألیف : ابن ابي الحديد ،ناشر: مکتبة آیة الله العظمی المرعشي النجفي (ره)،ﺝ 4 ﺹ 99]

http://lib.eshia.ir/15335/4/99/%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%A8%D8%BA%D8%B6%D9%8A%D9%86

قاتل امام حسین علیہ السلام ابن زیاد لعنت اللہ علیہ کا خزانچی بھی تھا :

ذہبی لکھتا ہے:

عامر بن شقيق عن أبي وائل : استعملني ابن زياد على بيت المال.

وہ ابن زیاد کے بیت المال کا خزانچی تھا۔

[سير أعلام النبلاء ،الذهبي – شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي ،مؤسسة الرسالة،سنة النشر: 1422هـ / 2001م ،ﺝ 4 ﺹ 166]

https://islamweb.net/ar/library/index.php?page=bookcontents&ID=502&bk_no=60&flag=1

کھلم کھلا شریعت کے خلاف کام انجام دیتا تھا:

چنانچہ ابن قتیبہ لکھتا ہے:

كانوا ليشربون الجر- أي نبيذ الجر- ويلبسون المعصفر لا يرون بذلك بأسا

کہ وہ جر یعنی جو کی شراب پیتا اور کسم سے رنگے کپڑے پہنتا اور ان کے پہنے کو برا نہیں سمجھتا تھا ۔

[الكتاب: المعارف ،المؤلف: أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (ت ٢٧٦هـ) ،تحقيق: ثروت عكاشة
الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة
الطبعة: الثانية، ١٩٩٢ م ،ج 1 ص 449]

https://shamela.ws/book/12129/571

شراب کی حرمت تو بلکل واضح ہے، کسم سے رنگے کپڑوں کی حرمت بھی صحیح مسلم سے ہی نقل کئے دیتے ہیں۔

چنانچہ مسلم نے اپنی صحیح میں، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟﻠِّﺒَﺎﺱِ ﻭَﺍﻟﺰِّﻳﻨَﺔِ میں اس کی حرمت پر مکمل باب باندھا ہے: ﺑﺎﺏ ﺍﻟﻨَّﻬْﻲِ ﻋَﻦْ ﻟُﺒْﺲِ ﺍﻟﺮَّﺟُﻞِ ﺍﻟﺜَّﻮْﺏَ ﺍﻟْﻤُﻌَﺼْﻔَﺮَ

ہم باب میں سے فقط ایک روایت پر ہی اکتفا کرتے ہیں:

27 – (2077) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَحْيَى، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّ ابْنَ مَعْدَانَ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ نُفَيْرٍ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَخْبَرَهُ، قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ ثَوْبَيْنِ مُعَصْفَرَيْنِ، فَقَالَ: «إِنَّ هَذِهِ مِنْ ثِيَابِ الْكُفَّارِ فَلَا تَلْبَسْهَا»،

عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے،رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ(وآلہ)وسلم نے مجھ کو دیکھا کسم کے رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تو فرمایا:”یہ کافروں کے کپڑے ہیں ان کو مت پہن”

[الكتاب: صحيح مسلم،المؤلف: أبو الحسين مسلم بن الحجاج القشيري النيسابوري (٢٠٦ – ٢٦١ هـ) ،المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي
الناشر: مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه، القاهرة
(ثم صورته دار إحياء التراث العربي ببيروت، وغيرها)
عام النشر: ١٣٧٤ هـ – ١٩٥٥ م،ج4 ص960]

https://al-maktaba.org/book/33760/6397

أَبُوالهياج حيان بْن حصين ‏اس سے کتب حدیث میں فقط ایک یہی روایت مروی ہے اور اس کی توثیق فقط عجلی و ابن حبان نے کی ہے اور علماء اہل سنت کے نزدیک یہ دونوں توثیق کرنے میں متساهل ہیں ۔

کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اس لئے صحیحین میں مدلس کا عن سے روایت کرنے میں کوئی خرابی نہیں بلکہ اسے سماعت پر ہی محمول کیا جائے گا۔

اس صورت میں ہمارا جواب یہ ہوگا کہ بخاری و مسلم نے اپنی کسی کتاب میں اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ اگر ہم مدلس سے "عن” والی روایت نقل کریں تو اسے بھی سماعت پر محمول سمجھو، کسی محدث نے بخاری و مسلم سے کیا ایسا قول نقل کیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر بہت بعد میں آنے والے نووی اور اس جیسے مولویوں کے اقوال کی کیا حیثیت ہے، نہ ان کے پاس علم غیب تھا اور نہ ہی وہ بخاری و مسلم سے ملے تھے بلکہ یہ بس ان کی خوش فہمی تھی۔

ایک نظر متن حدیث پر:

یہ تھی سند کی تحقیق اب ذرا متن کو بھی ملاحظہ فرمائیں، ناصبی مترجمین روایت کے ترجمہ میں بھی خیانت کرتے ہیں چنانچہ غیر مقلد داؤد راز نے (ﻭﻻ ﻗﺒﺮﺍ ﻣﺸﺮﻓﺎ ﺇﻻ ﺳﻮﻳﺘﻪ) کا ترجمہ(کوئی بلند قبر مگر اس کو زمین کے برابر کر دے)کیا ہے جو کہ غلط ہے۔

ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ،ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟْﺠَﻨَﺎﺋِﺰِ، ﺑﺎﺏ ﺍﻷَﻣْﺮِ ﺑِﺘَﺴْﻮِﻳَﺔِ ﺍﻟْﻘَﺒْﺮِ ،حدیث نمبر 2243

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-12501.html

شرف کا معنی بلندی اور اونٹ کا کوہان (یا اس کے جیسی بلندی) ہے، اور سویتہ کا مفہوم برابر کرنا ہے تو اگر مطلقا بلندی مراد لیا جائے تو برابر کرنے کا کیا معنی؟ کیونکہ قبر کو زمین سے ملانے پر تو کسی نے بھی عمل نہیں کیا یہاں تک کہ مسلم کی تمام روایات کو صحیح ماننے والے نام نہاد فرضی اہل حدیث بھی اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ مراد یہ ہے کہ جو قبریں اونٹ کی پشت کی طرح ابھری ہوی ہیں انہیں اکسار کردو، مگر خلاف سنت ناصبی اپنی قبریں اونٹ کی پشت کی طرح بناتے ہیں اور شیعیان حیدر کرار علیہ السلام مطابق سنت قبور کو بناتے ہیں۔

چنانچہ قسطلانی نے اس امر کا اعتراف کیا ہے:

ولا يؤثر في أفضلية التسطيح كونه صار شعارًا للروافض، لأن السنة لا تترك بموافقة أهل البدع فيها، ولا يخالف ذلك قول علي، رضي الله عنه: أمرني رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن لا أدع قبرًا مشرفًا إلا سويته، لأنه لم يرد تسويته بالأرض، وإنما أراد تسطيحه جمعًا بين الأخبار.

[إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري،المؤلف: أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ)
الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية، مصر ،الطبعة: السابعة، 1323 هـ ﺝ 2 ﺹ 477]

https://ar.lib.efatwa.ir/45918/2/477/%D9%88%D8%A5%D9%86%D9%85%D8%A7_%D8%A3%D8%B1%D8%A7%D8%AF_%D8%AA%D8%B3%D8%B7%D9%8A%D8%AD%D9%87_%D8%AC%D9%85%D8%B9%D9%8B%D8%A7_%D8%A8%D9%8A%D9%86_%D8%A7%D9%84%D8%A3%D8%AE%D8%A8%D8%A7%D8%B1

اس کی بلند کو برابر کرناافضل ہے ،یہ رافضیوں کا شعار ہے اس سے اسکی بلندی کو برابر کرنے کی افضلیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا،اور یہ قول علی رضی اللہ عنہ(علیہ السلام)کے قول«أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ»کے منافی نہیں بلکہ اس سے مراد قبروں کو زمین سے ملانے کا نہیں بلکہ بلندی کو برابر کرنے کا حکم سمجھ میں آتا ہے روایت کو جمع کرنے کے بعد۔

خلاصہ یہ کہ روایت سند کے اعتبار سے مردود ہے اور مفہوم بھی وہ نہیں جو نواصب کی ناقص عقلوں میں ہے ۔