نماز تراویح(جہنم میں لے جانے والی بدعت)
عمر نے اپنے دور حکمت میں جو نئی نئی بدعات انجام دیں ان میں سے ایک نماز تراویح بھی ہے جسے عمر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت میں شروع کیا، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو اس سے منع فرمایا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بدعت سے سختی سے منع فرمایا:
(۱)صحیح مسلم۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بدعت سے سختی سے منع فرمایا، مسلم نے جناب جابر بن عبداللہ علیہما الرحمہ سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
اور(دین میں) سب کاموں سے برے،نئے کام ہیں اور نیا کام(بدعت) گمراہی ہے۔
[صحیح مسلم، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟْﺠُﻤُﻌَﺔِ ،ﺑﺎﺏ ﺗَﺨْﻔِﻴﻒِ ﺍﻟﺼَّﻼَﺓِ ﻭَﺍﻟْﺨُﻄْﺒَﺔِ ،حدیث نمبر 2005]


(۲)سنن مسائی۔
اور نسائی نے بھی با سند صحیح روایت کی ہے:
وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ
اور(دین میں) بدترین کام نئے کام ہیں، اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے،اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
[ﺳﻨﻦ ﻧﺴﺎﺋﻲ ،ﻛﺘﺎﺏ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﻌﻴﺪﻳﻦ ،ﺑَﺎﺏُ : ﻛَﻴْﻒَ ﺍﻟْﺨُﻄْﺒَﺔُ ، حدیث نمبر 1579]


اگر بدعت مدینہ منورہ میں انجام دی جائے تو اس کا شدید گناہ ہے:
اگر بدعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حرم مدینہ منورہ میں انجام دی جائے تو اس کا شدید گناہ ہے۔
(۱)بخاری نے انس بن مالک سے روایت کی ہے:
1867 – حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَحْوَلُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: المَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ كَذَا إِلَى كَذَا، لاَ يُقْطَعُ شَجَرُهَا، وَلاَ يُحْدَثُ فِيهَا حَدَثٌ، مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ "
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن احول عاصم نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ حرم ہے فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک ( یعنی جبل عیر سے ثور تک ) اس حد میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے نہ کوئی بدعت کی جائے اور جس نے بھی یہاں کوئی بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔
[صحيح بخاري حدیث نمبر 1867]


(۲)دوسری حدیث بخاری نے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کی:
1870 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَا عِنْدَنَا شَيْءٌ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ، وَهَذِهِ الصَّحِيفَةُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” المَدِينَةُ حَرَمٌ، مَا بَيْنَ عَائِرٍ إِلَى كَذَا، مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلٌ
علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیفہ کے سوا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ہے اور کوئی چیز ( شرعی احکام سے متعلق ) لکھی ہوئی صورت میں نہیں ہے۔ اس صحیفہ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ عائر پہاڑی سے لے کر فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس حد میں کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے، نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل۔
[صحیح البخاری، ﻛِﺘَﺎﺏ ﻓَﻀَﺎﺋِﻞِ ﺍﻟْﻤَﺪِﻳﻨَﺔِ ، ﺑَﺎﺏُ ﺣَﺮَﻡِ ﺍﻟْﻤَﺪِﻳﻨَﺔِ، حدیث نمبر 1870]


مگر ان تمام تحذيرات کے بعد بھی عمر نے کچھ توجہ نہیں کی اور اللہ سبحانہ تعالی کے مبارک مہینہ میں بدعت انجام دی۔
نوافل رمضان المبارک سنت موکدہ ہے:
نوافل رمضان المبارک کے متعلق بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں زید بن ثابت سے روایات نقل کی ہیں:
731 – حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً – قَالَ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ مِنْ حَصِيرٍ – فِي رَمَضَانَ، فَصَلَّى فِيهَا لَيَالِيَ، فَصَلَّى بِصَلاَتِهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا عَلِمَ بِهِمْ جَعَلَ يَقْعُدُ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: «قَدْ عَرَفْتُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ، فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلاَةِ صَلاَةُ المَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا المَكْتُوبَةَ» قَالَ عَفَّانُ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى، سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ، عَنْ بُسْرٍ، عَنْ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ابوالنضر سالم سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں ایک حجرہ بنا لیا یا اوٹ ( پردہ ) بسر بن سعید نے کہا میں سمجھتا ہوں وہ بورئیے کا تھا۔ آپ نے کئی رات اس میں نماز پڑھی۔ صحابہ میں سے بعض حضرات نے ان راتوں میں آپ کی اقتداء کی۔ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے بیٹھ رہنا شروع کیا ( نماز موقوف رکھی ) پھر برآمد ہوئے اور فرمایا تم نے جو کیا وہ مجھ کو معلوم ہے، لیکن لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو کیونکہ بہتر نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز
[ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ،ﺃﺑﻮﺍﺏ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻭﺍﻹﻣﺎﻣﺔ ، ﺑﺎﺏ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﻠﻴﻞ حدیث نمبر 731]





6113 – وَقَالَ المَكِّيُّ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ح وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: احْتَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَيْرَةً مُخَصَّفَةً، أَوْ حَصِيرًا، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيهَا، فَتَتَبَّعَ إِلَيْهِ رِجَالٌ وَجَاءُوا يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ، ثُمَّ جَاءُوا لَيْلَةً فَحَضَرُوا، وَأَبْطَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمْ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ، فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ وَحَصَبُوا البَابَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مُغْضَبًا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا زَالَ بِكُمْ صَنِيعُكُمْ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُكْتَبُ عَلَيْكُمْ، فَعَلَيْكُمْ بِالصَّلاَةِ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ خَيْرَ صَلاَةِ المَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلاَةَ المَكْتُوبَةَ»
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی شاخوں یا بوریئے سے ایک مکان چھوٹے سے حجرے کی طرح بنا لیا تھا۔ وہاں آ کر آپ تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے، چند لوگ بھی وہاں آ گئے اور انہوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی پھر سب لوگ دوسری رات بھی آ گئے اور ٹھہرے رہے لیکن آپ گھر ہی میں رہے اور باہر ان کے پاس تشریف نہیں لائے۔ لوگ آواز بلند کرنے لگے اور دروازے پر کنکریاں ماریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصہ کی حالت میں باہر تشریف لائے اور فرمایا تم چاہتے ہو کہ ہمیشہ یہ نماز پڑھتے رہو تاکہ تم پر فرض ہو جائے ( اس وقت مشکل ہو ) دیکھو تم نفل نمازیں اپنے گھروں میں ہی پڑھا کرو۔ کیونکہ فرض نمازوں کے سوا آدمی کی بہترین نفل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھی جائے۔
[صحیح بخاری، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ : 6113]


214 – (781) وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا لَيَالِيَ، حَتَّى اجْتَمَعَ إِلَيْهِ نَاسٌ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَزَادَ فِيهِ: «وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ»
زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے بورئیے سے مسجد میں ایک حجرہ بنایا اور نبی(ص) نے اس میں کئی رات نماز پڑھی یہاں تک کہ لوگ جمع ہوئے اور ذکر کی حدیث سابق کی مانند اور اس میں یہ زیادہ کیا کہ "اگر فرض ہو جاتی تم پر یہ نماز تو تم اس کے لئے کھڑے نہ ہوتے”۔
[صحیح مسلم، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺻَﻠَﺎﺓِ ﺍﻟْﻤُﺴَﺎﻓِﺮِﻳﻦَ ﻭَﻗَﺼْﺮِﻫَﺎ ،ﺑﺎﺏ ﺍﺳْﺘِﺤْﺒَﺎﺏِ ﺻَﻼَﺓِ ﺍﻟﻨَّﺎﻓِﻠَﺔِ ﻓِﻲ ﺑَﻴْﺘِﻪِ ﻭَﺟَﻮَﺍﺯِﻫَﺎ ﻓِﻲ ﺍﻟْﻤَﺴْﺠِﺪِ ، حدیث نمبر 1826]


روایات سے اخذ ہونے والے نتائج:
(۱) بغیر اجازت کے صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز ادا کرنے لگے۔
(۲) جب آپ گھر سے باہر تشریف نہیں لائے تو کمال بیشرمی کا ثبوت دیتے دروازے پر کنکریاں مارنے لگے۔
(۳) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کا یہ عمل اتنا ناگوار گزرا کہ ان پر غضبناک ہوئے۔
(۴) صحابہ کی دلی کیفیت بھی آشکار کر دی کہ اگر تم پر یہ نماز واجب کر دی جائے تو تم ادا نہیں کروگے۔
(۵) واجب نماز کے سوا نوافل گھر میں ادا کرنی چاہیے۔
(۶)نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو مسجد میں نوافل با جماعت ادا کرنے سے روکا۔
رسولؐ کے منع کرنے کے باوجود بھی عمر نے تراویح کی بدعت قائم کی:
مگٍر کچھ ہی دنوں میں صحابہ نے سب کچھ بھلا دیا اور دوبارہ وہی بدعت انجام دینی شروع کر دی ،بخاری نے اپنی صحیح میں عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت نقل کی ہے:
2010 – وَعَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ القَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى المَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: «إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلاَءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ، لَكَانَ أَمْثَلَ» ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ: «نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ» يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ
اور ابن شہاب سے (امام مالک رحمہ اللہ) کی روایت ہے، انہوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز ( تراویح ) پڑھ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ(یہ بدعت اچھی ہے) بہتر اور مناسب ہے۔
[صحیح البخاری، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺻَﻠَﺎﺓِ ﺍﻟﺘَّﺮَﺍﻭِﻳﺢِ ،ﺑَﺎﺏُ ﻓَﻀْﻞِ ﻣَﻦْ ﻗَﺎﻡَ ﺭَﻣَﻀَﺎﻥَ ، حدیث نمبر 2010]



چاہئے تو یہ تھا کہ عمر حاکم وقت ہونے کے سبب صحابہ کو مسجد سے نکال پھینکتا اور کہتا کہ اللہ کے گھر میں یہ کیا بدعت انجام دیتے ہو مگر اس کے برعکس عمر نے ان کی اس بدعت کو لوگوں میں عام کر دیا۔
اہل سنت سے سوال:
تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے عمر کی بدعت کو کیوں اپنا شعار بنا لیا ہے؟
جو روایات بدعتی کے متعلق و بالخصوص مدینہ منورہ میں بدعت انجام دینے کے متعلق آئی ہیں ان سے عمر کو کیسے بچا سکتے ہو؟