علی(ع)مولود کعبہ
- حضرت علیؑ کی خانہ کعبہ میں ولادت پر امت مسلمہ کا اجماع ہے
- حضرت علی علیہ السلام کی خانہ کعبہ میں ولادت کت متعلق علماء امامیہ کا موقف
- غلام مصطفی امن پوری کی ناصبیت
- سعید مجتبی سعیدی ناصبی کا ایک مضمون(مولود کعبہ حضرت حکیم بن حزام)
- حضرت علیؑ کی خانہ کعبہ میں ولادت کی نفی پر مردود قول
- جواب
- حکیم بن حزام کی ولادت پر ناصبیوں کے دلائل
- حکیم بن حزام کی ولادت پر ناصبیوں کے دلائل کا جواب
- خانہ کعبہ میں حضرت علیؑ کی ولادت کے متعلق علماء اہلسنت کی تصریحات
- خانہ کعبہ میں حضرت علیؑ کی ولادت خبر متواتر سے ثابت ہے
- تواتر کی تصریح پر ایک ناصبی کا امام حاکم پر اعتراض
- امام حاکم کی تصریح کی ناصبی امنپوری کا اعتراض
- امام حاکم کا مرتبہ
- حضرت علیؑ کی خانہ کعبہ میں ولادت پر حدیث
- اہلسنت کے یہاں صحیح حدیث کا اصول
- حدیث کے راوی
- محمد بن یوسف شافعی پر شیعہ ہونے کے الزام کا ازالہ
- حدیث کی تائید میں ابن مغازلی کی روایت
- ابن مغازلی کی روایت پر ناصبی امنپوری کا رد
- صحیح بخاری کی روایت میں مجہول راوی
- تاریخ موصل سے حدیث کی تائید
- راویوں کا احوال
- تابعی کی مراسیل مقبول ہے
- ایک روایت متعدد طرق سے وارد ہو اگر سندا ضعیف بھی ہو تو طرق ضعف کا جبران کر دیتی ہیں
- فضائل میں ضعیف احادیث بھی قابل قبول ہوتی ہیں
اللہ سبحانہ تعالی نے اپنے ولی کامل اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خلیفہ برحق و بلافصل کی ولادت کے لئے اپنے پاک و پاکیزہ گھر بیت اللہ الحرام کا انتخاب کیا وہ گھر جس کی تعمیر اس کے حکم سے خلیل اللہ ابراہیم و ذبیح اللہ اسماعیل علیہما السلام نے کی جس گھر کی عظمت و تکریم کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:
ﺇِﻥَّ ﺃَﻭَّﻝَ ﺑَﻴْﺖٍ ﻭُﺿِﻊَ ﻟِﻠﻨَّﺎﺱِ ﻟَﻠَّﺬِﻱ ﺑِﺒَﻜَّﺔَ ﻣُﺒَﺎﺭَﻛًﺎ ﻭَﻫُﺪًﻯ ﻟِّﻠْﻌَﺎﻟَﻤِﻴﻦَ ﴿٩٦ – ٣﴾
بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا رہنما۔
قابل غور امر یہ ہے کہ روح اللہ عیسی ابن مریم علیہما السلام کی ولادت کے موقع پر اللہ سبحانہ تعالی نے مریم سلام اللہ علیہا کو بیت المقدس سے چلے جانے کا حکم دیا مگر مادر امیرالمومنین علیہما السلام کے لئے بیت اللہ کی دیوار نے مسکراکر راستہ بنادیا، کائنات میں یہ شرف صرف آپ کو حاصل ہے ،نہ آپؑ سے پہلے کوئی مولود کعبہ تھا اور نہ آپؑ کے بعد کوئی اس پاکیزہ گھر میں پیدا ہوگا۔
حضرت علیؑ کی خانہ کعبہ میں ولادت پر امت مسلمہ کا اجماع ہے:
شاز و نادر منافقین کو چھوڑ کر تمام امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ آپ علیہ السلام کی جائے ولادت کعبہ ہے، اہل بیت علیہم السلام کی روایات سے اخذ شیعیان حیدر کرار علیہ السلام کا یہ مسلم عقیدہ ہے اور سلف سے خلف تک تمام علماء رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے تسلیم کیا ہے بلکہ یہ بات ہمارے یہاں فوق تواتر سے ثابت ہے، بعض علمائے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تحقیق کو قارئین کرام کی نظر کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام کی خانہ کعبہ میں ولادت کت متعلق علماء امامیہ کا موقف:
(۱)شیخ صدوق علیہ السلام :
آپ نے ایک مستقل کتاب اس موضوع پر لکھی تھی (مولد مولانا علي عليه السلام بالبيت) اس کا ذکر ابن طاووس علیہ الرحمہ نے کیا ہے۔
رأيت ذلك و رويته من كتاب مولد مولانا علي ع بالبيت تأليف أبي جعفر محمد بن بابويه قد رواه عن رجال الجمهور فلذلك أذكره و أقتصر على المراد منه لأنه نحو خمس قوائم.
[اليقين باختصاص مولانا علي (عليه السلام) بإمرة المؤمنين ويتلوه التحصين لأسرار ما زاد من أخبار كتاب اليقين تأليف الورع التقي السيد رضي الدين علي بن الطاووس الحلي 589 – 664 ه ق مؤسسة الثقلين لإحياء التراث الإسلامي مؤسسة دار الكتاب (الجزائري) للطباعة والنشر شارع إرم – قم – إيران – تليفون 24568 تحقيق: الأنصاري]
https://ar.lib.eshia.ir/13220/1/191
اس کے علاوہ بھی آپ کی کتاب العلل وغیرہ میں تفصیلی روایات موجود ہیں۔
(۲) شیخ مفید علیہ الرحمہ :
ولد بمكة في البيت الحرام يوم الجمعة الثالث عشر من رجب سنة ثلاثين من عام الفيل ولم يولد قبله ولا بعده مولود في بيت الله تعالى سواه إكراما من الله تعالى له بذلك وإجلالا لمحله في التعظيم
[الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد أبي عبد الله محمد بن محمد بن النعمان العكبري البغدادي الشيخ المفيد (336 – 413 ه) تحقيق مؤسسة آل البيت (ع) لتحقيق التراث دار المفيد طباعة – نشر – توزيع جميع حقوق الطبع محفوظة الطبعة الثانية 1414 هجرية – 1993 ميلادية طبعت بموافقة اللجنة الخاصة المشرفة على المؤتمر العالمي لألفية الشيخ المفيد – دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع بيروت. لبنان. ص. ب. 25 / 304 – ،ج 1 ص 5]
(آپ علیہ السلام ) کی ولادت مکہ مکرمہ میں بیت الحرام میں بروز جمعہ 13 رجب 30 عامل الفیل کو ہوئی نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کسی کی ولادت بیت اللہ میں نہیں ہوئی یہ اللہ سبحانہ تعالی کی طرف سے آپ کے اکرم و تعظیم کے سبب تھا ۔
(۳)جامع نہج البلاغہ سید اجل رضی علیہ الرحمہ :
ولد عليه السلام بمكة في البيت الحرام لثلاث عشرة ليلة خلت من رجب، بعد عام الفيل بثلاثين سنة، وأمه فاطمة بنت أسد بن هاشم بن عبد مناف، وهو أول هاشمي في الاسلام، ولده هاشمي مرتين ولا نعلم مولود ولد في الكعبة غيره.
[خصائص الأئمة عليهم السلام خصائص أمير المؤمنين عليه السلام تأليف الشريف الرضي أبي الحسن محمد بن الحسين بن موسى الموسوي البغدادي 359 – 406 تحقيق وتعليق:
الدكتور محمد هادي الأميني مجمع البحوث الإسلامية الآستانة الرضوية المقدسة مشهد – إيران ص، ب: 3663, ص 39]
(۴)شیخ الطائفة طوسی علیہ الرحمہ :
وُلِدَ بِمَكَّةَ فِي الْبَيْتِ الْحَرَامِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ لِثَلَاثَ عَشْرَةَ خَلَتْ مِنْ رَجَبٍ بَعْدَ عَامِ الْفِيلِ بِثَلَاثِينَ سَنَة
[كتاب:تهذيب الأحكام
مصادر الحديث الشيعية ـ قسم الفقه
تألیف :الشيخ الطوسي
المحقق :السيد حسن الموسوي الخرسان
تعليق :السيد حسن الموسوي الخرسان
المطبعة :خورشيد
الناشر :دار الكتب الإسلامية – طهران،ج ۶ ص ۱۹]
https://ito.lib.eshia.ir/86298/6/19
(5)ابن شہر آشوب علیہ الرحمہ :
فليس المولود في سيد الأيام يوم الجمعة في الشهر الحرام في البيت الحرام سوى أمير المؤمنين عليه السلام
[كتاب:مناقب آل أبي طالب
تأليف:الامام الحافظ ابن شهرآشوب رشيد الدين أبي عبد الله محمد بن علي بن شهرآشوب ابن أبي نصر بن أبي حبيش السروي المازندراني
المتوفى:سنة 588 ه قام بتصحيحه وشرحه ومقابلته على عدة نسخ خطية لجنة من أساتذة النجف الأشرف الجزء الثاني من ثلاثة أجزاء قام بطبعه محمد كاظم الكتبي صاحب المكتبة والمطبعة الحيدرية وله حقوق الطبع محفوظة طبع في المطبعة الحيدرية في النجف ج 2 ص 23]
یہ بعض شیعہ علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تحقیق تھی۔
اهل سنت کے یہاں بھی یہ امر مسلم ہے بعض نواصب کو چھوڑ کر کسی نے بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کیا ہے۔
غلام مصطفی امن پوری کی ناصبیت:
غلام مصطفی امن پوری نے حسب عادت اس فضیلت کو رد کرنے کی کوشش کی ہے اپنے ماہنامہ السنہ درحقیقت البدعہ میں ایک موضوع اس حقیقت کے انکار کے طور پر لکھا :
http://mazameen.ahlesunnatpk.com/moulood-e-kaaba/
خارجی ناصبیوں کی بدنام زمانہ اور جھوٹ کی ٹکسال محدث فارم نامی ویب سائٹ پر اس حقیقت کے انکار کے لئے بہت کچھ جھوٹ و فریب پھیلایا گیا
سعید مجتبی سعیدی ناصبی کا ایک مضمون(مولود کعبہ حضرت حکیم بن حزام):
اسحاق ناصبی نے سعید مجتبی سعیدی ناصبی کا ایک مضمون(مولود کعبہ حضرت حکیم بن حزام) چسپاں کیا :
اس کے سوا اور بھی کئی ناصبیوں کے مضامین موجود ہیں مگر کوئی دلیل نہیں دی گئی بلکہ ایک دوسرے کا تھوکا ہوا ہی چاٹا گیا ہے، ناصبیوں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح اس فضیلت کا امیرالمومنین علیہ السلام کے حق میں انکار کر کے اسے حکیم بن حزام نامی شخص کے حصہ میں ڈال دیں۔
ناصبیوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین توڑ کر فقط اور فقط بغض امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہما السلام میں حکیم کو مولود کعبہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
امن پوری نے دو روایت نقل کیں جن میں امیرالمومنین علیہ السلام کا کعبہ میں پیدا ہونا مذکور تھا، ان کی سند پر کلام کرنے کے بعد لکھتا ہے:
"رہی مؤرخین کی تصریحات،تو وہ بھی اس کے بالکل خلاف ہیں،وہ سب یہی کہتے ہیں کہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ پہلے اور آخری مولود ِکعبہ ہیں۔
الحاصل : سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مولود ِکعبہ ہونا کسی معتبر دلیل سے ثابت نہیں۔اس بارے میں کوئی صحیح و صریح روایت ذخیرۂ حدیث میں موجود نہیں”۔
ناصبی کو چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے دعوے کی دلیل میں کسی مورخ کا قول نقل کرتا، مگر خود جانتا تھا کہ کوئی ایک قول بھی اس کے باطل دعوے کی دلیل نہیں بن سکتا.
حضرت علیؑ کی خانہ کعبہ میں ولادت کی نفی پر مردود قول:
ناصبی نے کسی مورخ کا قول نقل نہیں کیا، البتہ ﺳﻌﯿﺪ ﻣﺠﺘﺒﯽ ﺳﻌﯿﺪﯼ نے اپنے موقف کی تائید میں کئی مردود قول نقل کئے ہیں لکھتا ہے:
حکیم بن حزام کے متعلق لکھا ہے :
(واقعہ فیل سے بارہ تیرہ برس قبل آپ کی ولادت کعبہ مشرف کے اندر ہوئی،اور یہ ایک ایسی منفرد اور بے نظیر خصوصیت ہے جو پوری کائنات میں آپ کے سوا کسی دوسرے کو حاصل نہیں)،پھر لکھتا ہے:(شیعہ حضرات امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق دعوی کرتے ہیں کہ انکی بھی ولادت کعبہ میں ہوئی تھی،مگر کسی مستند حوالے سے ان کے بارے میں یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی)۔
جواب:
(احمق ناصبی نے یہ دعوٰی بھی بغیر دلیل کے کیا، حق تو یہ تھا کہ ہماری کتب احادیث سے امیرالمومنین علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کے متعلق تمام روایات کو ہمارے اصولوں پر جانچ کر رد کرتا علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال و انکی تحقیقات کو اصولوں سے رد کرتا اور پھر یہ دعوٰی کرتا کہ شیعہ حضرات کے پاس کوئی مستند دلیل نہیں، مگر بے حیا نے نہ کوئی حدیث رد کی نہ علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کو رد کیا بلکہ اپنی طرف سے یہ جھوٹ لکھ دیا کہ ہمارے پاس مستند حوالہ نہیں، احمق کو بتاتے چلیں یہ جو ہم تمہاری کتب سے استدلال کرتے ہیں یہ تم پر حجت قائم کرنے کے لئے ہے، جیسے مسلمان غیر مسلموں کی کتب سے ان پر حجت قائم کرتے ہیں، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مسلمان ان کی کتب کو معتبر مانتے ہیں یا مسلمانوں کے پاس اپنی کتب نہیں، بلکہ ان کا یہ عمل بطور قائدہ الزام کے ہے کہ مقابل کو اس کی ہی کتابوں سے قائل کیا جا سکے، اتنی چھوٹی سی بات ان ناصبیوں کے دماغ میں نہیں آتی!)
حکیم بن حزام کی ولادت پر ناصبیوں کے دلائل:
ابن حزام کی کعبہ میں ولادت کے متعلق دلائل پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
1۔امام مسلم بن حجاج ؒ کی شہادت:۔
امام موصوف اپنی مایہ ناز کتاب "صحیح مسلم” میں فرماتے ہیں۔
وُلِد حكيم في جوف الكعبة ، وعاش مئة وعشرين سنة . (باب ثبوت اخیار المجلس للمتبایعین 176/10)
کہ حکیم بن حزام کی ولادت کعبہ مشرفہ کے اندر ہوئی اور انہوں نے ایک سو بیس سال عمر پائی۔
2۔امام سیوطی کی شہادت مولده : وُلِد حكيم في جوف الكعبة
(تدریب الراوی طبع جدید 358/2)
3۔وُلِد حكيم في جوف الكعبة (ریح النسرین للسیوطی ص49) کہ حکیم کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔
4۔امام نوویؒ کی شہادت:۔
امام موصوف شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں۔
ومن مناقبه أنه ولد في الكعبة! قال بعض العلماء ولا يعرف أحد شاركه في هذا
کہ حکیم بن حزام کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ "کوئی دوسرا شخص اس خصوصیت میں ان کاشریک نہیں۔”
5۔ ” وُلِد حَكِيم بن حزام رضي الله عنه ولد فِي جَوف الْكَعْبَة ، وَلَا يعرف أحد ولد فِيهَا غَيره ، وَأما مَا رُوِيَ عَن عَلّي رَضي اللهُ عَنهُ أَنه ولد فِيهَا فضعيف (تہذیب الاسماء اللغات للنووی 166/1)
کہ حکیم کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی کوئی دوسرا شخص اس کے اند مولود نہیں ہوا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو یہ بات بیان کیجاتی ہے۔ تو یہ قول اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے۔
6۔ قَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ: كَانَ مَوْلِدُ حَكِيمٍ فِي جَوْفِ الْكَعْبَة (تدریب 359/2 وتہذیب 448/2)
7۔ سمعت علي بن غنام العامري يقول: ( ولد حكيم بن حزام في جوف الكعبة دخلت أمه الكعبة فمخضت فيها فولدت في البيت (المستدرک للحاکم 482/3)
ان دونوں قولوں کا مفہوم بھی یہی ہے کہ حکیم بن حزام کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔
8۔مصعب بن عبداللہ کہتے ہیں۔
وَكَانَتْ وَلَدَتْ … مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ ، وَلا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ (المستدرک للحاکم 483/3)
کہ ان کی والدہ انھیں کعبے کے اندر جنم دیا۔ان سے پہلے اور بعد کوئی بھی کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا۔
اس پر امام حاکم لکھتے ہیں کہ کہ اس آخری بات میں مصعب کو وہم ہوا۔ متواتر روایات سے ثابت ہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب کی بھی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی تھی۔(ملاحظہ ہو المستدرک 483/3)
9۔قال شیخ الاسلام:۔
ولا يعرف ذلك لغيره. وأما ما روي أن عليا ولد فيها فضعيف (تدریب الراوی 360/2)
شیخ الاسلام فرماتے ہیں:۔ کہ یہ خصوصیت ان کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں۔مستدرک میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو منقول ہے وہ ضعیف ہے۔
10۔ابن عبدالبرؒ کی شہادت:۔
آپ فرماتے ہیں:کہ حکیم کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔(الاستعیاب 363/1)
11۔ ولد حكيم فى جوف الكعبة، ولا يُعرف أحد ولد فيها غيره، وأما ما روى أن على بن أبى طالب، رضى الله عنه، ولد فيها، فضعيف عند العلماء. (عنوان التحابہ ص62)
کہ حکیم کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی اور کوئی دوسرا شخص اس خصوصیت میں ان کا شریک نہیں حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے۔
12۔ حكيم بن حزام يقول ولدت قبل قدوم أصحاب الفيل بثلاث عشرة سنة (خلاصہ تہذیب الکمال ص90)
کہ حکیم کی ولادت عام الفیل سے تیرہ برس قبل کعبہ کے اندر ہوئی۔
یہ چند ناصبیوں کے اقوال تھے جو اس نے بطور استدلال تحریر کیا ہے۔
حکیم بن حزام کی ولادت پر ناصبیوں کے دلائل کا جواب:
ان کا مختصر جواب یہ ہے کہ مسلم سے لیکر سیوطی تک کسی بھی ناصبی نے اپنے موقف کی تائید میں کوئی روایت پیش نہیں کی جس کی سند کسی صحابی یا تابعی تک جاتی ہو بلکہ سب نے مکھی پر مکھی ماری ہے، جب ان کے موقف کے خلاف کوئی بات ہو تو یہ سند کے پجاری سند سند کا رونا شروع کر دیتے ہیں اور بات جب اپنے مزاج کی ہو تو نہ اب سند کی کوئی ضرورت نہ راویوں کی تحقیق کی ضرورت ہے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ مقام امیرالمومنین علیہ السلام کو کسی طرح گھٹایا جا سکے، ان خارجیوں کو چیلنج ہے کہ فقط ایک متصل صحیح سند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا کسی صحابی یا تابعی تک دکھا دیں جس میں ابن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے کا ذکر ہو یہ جماعت جہنم واصل ہو جائے گی مگر ایک صحیح سند حدیث یا صحابی و تابعی کا قول نہیں دکھا سکتی جس سے ان کے موقف کی تائید ہو۔
اور اگر حجت علماء کے اقوال ہیں تو جتنے اقوال ابن حزام کی پیدائش کے متعلق ہیں اس سے کہیں زیادہ تصریحات امیرالمومنین علیہ السلام کے متعلق ہیں بعض علماء اہل سنت کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
خانہ کعبہ میں حضرت علیؑ کی ولادت کے متعلق علماء اہلسنت کی تصریحات:
(۱) معروف مؤرخ ابو الحسن علی بن الحسين شافعی المسعودی [المتوفی 346]
اپنی مشہور زمانہ کتاب مروج الذہب میں لکھتے ہیں:
وكان مولده في الكَعبة .
اور آپ (علیہ السلام ) کعبہ میں پیدا ہوئے۔
[مروج الذهب،مولف: مؤرخ ابو الحسن علی بن الحسين شافعی المسعودی [المتوفی 346]،ط:المكتبة العصرية،الطبعة الاولى 1425ه. 2005م، ج 2 ص 273]




(۲) مؤرخ اسلام علامہ سبط ابن جوزی حنفی [المتوفی 654]:
إنّ فاطمة بنت أسد كانت تطوف بالبيت و هي حامل بعليّعليه السّلام، فضربها الطّلق، ففتح لها باب الكعبة، فدخلت فوضعته فيها
روایت کی گئی ہے کہ فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں جبکہ علی (علیہ السلام ) ان کے شکم میں تھے . انہیں درد زہ شروع ہوا تو ان کے لئے کعبہ کے دروازے کھل گئے پس وہ اندر داخل ہوئیں اور وہیں علی (علیہ السلام ) پیدا ہوئے۔
[تذكرة الخواص من الأمة بذكر خصائص الأئمة
تأليف :ابنجوزى، يوسف بن قزاوغلى
تاريخ وفات پديدآور: 654 ه. ق
محقق: تقى زاده، حسين،موضوع: سرگذشتنامه
ناشر: المجمع العالمي لاهل البيت عليهم السلام، مركز الطباعة و النشر
مكان چاپ: قم- ايران
سال چاپ: 1426 ه. ق،ج ۱ ص ۱۵۵]
https://lib.eshia.ir/12378/1/155
(۳) شيخ الشافعية شرف الدين ابي محمد عمر بن شجاع الدين محمد بن عبد الواحد الموصلي [المتوفی 657]:
ومولده في الکعبة المعظمة، ولم يولد بها سواه .
اور آپ (علیہ السلام ) کی جائے ولادت کعبہ معظمہ ہیں اور وہاں آپ کے سوا کوئی اور پیدا نہیں ہوا ۔
[كتاب:النعيم المقيم لعترة النبأ العظيم
تألیف:شرف الدين الموصلي
الموضوع : أهل البيت
الناشر : مؤسسة الأعلمي ،ج 1 ص 55]
(۴) امام اہل سنت ابو عبداللہ محمد بن یوسف الشافعي الکنجی [المتوفی 658]:
ولد أمير المؤمنين علي بن أبي طالب بمكة في بيت الله الحرام ليلة الجمعة لثلاث عشرة ليلة خلت من رجب سنة ثلاثين من عام الفيل ولم يولد قبله ولا بعده مولود في بيت الله الحرام سواه إكراما له بذلك ، وإجلالا لمحله في التعظيم .
امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام ) مکہ مشرفہ میں داخل بیت الحرام شب جمعہ تہرا رجب سنہ تیس عامل الفیل کو پیدا ہوئے، اور نہ آپ سے پہلے کوئی وہاں پیدا ہوا اور نہ آپ کے بعد کوئی پیدا ہوگا، یہ آپ کے اکرام، جلالت و تعظیم کے سبب تھا
[كفاية الطالب في مناقب علي بن أبي طالب
تألیف:الگنجي الشافعي، محمد بن يوسف
الموضوع : أهل البيت
الناشر : دار إحياء تراث أهل البيت عليهم السلام
،ج 1 ص 407]
(۵) الامام الكبير المحدث، شيخ المشائخ، صدر الدين ،الأوحد الأكمل، فخر الاسلام، صدر الدين إبراهيم بن المؤيد بن حمويه الخراساني [المتوفي 722]:
جن کے سبب غازان خان منگول بادشاہ نے اسلام قبول کیا
روي أنها لما ضربها المخاض اشتد وجعها فأدخلها أبوطالب الکعبة بعد العتمة فولدت فيها علي وقيل لم يولد في الکعبة إلا علي.
اور روایت کی گئی ہے کہ جب ان کا وضع حمل کا وقت قریب آیا درد زہ میں شدت ہوئی تو (حضرت) ابو طالب (علیہ السلام ) ان کو اول شب میں وارد کعبہ کیا جہاں علی (علیہ السلام ) کی ولادت ہوئی، کہا گیا ہے کعبہ میں آپ کے سوا کسی اور کی ولادت نہیں ہوئی
[كتاب:فرائد السمطین
تألیف:حمویی جوینی، ابراهیم بن محمد – محمودی، محمدباقر
الناشر:موسسه المحمودی ، ج1، ص425-426]
(۶) محدث الحرم جمال الدين محمد بن يوسف الزرندي الحنفی [المتوفی 750]:
و ولد کرم الله وجهه في جوف الکعبة
آپ کرم اللہ وجہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔
[معارج الوصول إلى معرفة آل الرسول و البتول
تألیف:جمال الدين محمد بن يوسف الزرندي الحنفي
الموضوع : أهل البيت
الناشر : مجمع إحياء الثقافة الإسلامية، ص49]
نیز اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
وأمه فاطمة بنت أسد ابن هاشم بن عبد مناف وهي أول هاشمية ولدت لهاشمي روي انه لما ضربها المخاض أدخلها أبو طالب الكعبة بعد العشاة فولدت فيها علي بن أبي طالب .
آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ہیں اور وہ اول ہاشمی خاتون تھیں جنہوں نے ہاشمی بچے کو جنم دیا روایت ہے کہ جب انکو درد زہ ہوا تو ابو طالب (علیہ افضل السلام ) نے ان کو عشاء کے بعد وارد کعبہ کیا جہاں آپ (علیہ السلام )کی ولادت ہوئی
[نظم درر السمطين في فضائل المصطفى و المرتضى و البتول و السبطين(ع)
تألیف:محمد بن عز الدين الزرندي
الموضوع : أهل البيت
الناشر : دار إحياء التراث العربي ، ص76]
(۷) نور الدين علي بن محمّد المعروف بابن الصبّاغ المالكي [المتوفی 855]:
ولد علي ( عليه السلام ) بمكة المشرفة بداخل البيت الحرام في يوم الجمعة الثالث عشر من شهر الله الأصم رجب الفرد سنة ثلاثين من عام الفيل قبل الهجرة بثلاث وعشرين سنة ، وقيل بخمس وعشرين ، وقبل المبعث باثني عشرة سنة ، وقيل بعشر سنين . ولم يولد في البيت الحرام قبله أحد سواه ، وهي فضيلة خصه الله تعالي بها إجلالا له وإعلاء لمرتبته وإظهارا لتكرمته .
علی (علیہ السلام )مکہ مشرفہ میں داخل بیت الحرام یوم جمعہ تہرا رجب سنہ تیس عامل الفیل کو پیدا ہوئے اور آپ سے پہلے کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا، اور یہ خاص فضیلت ہے جو اللہ سبحانہ تعالی نے آپ کو عطاء کی تاکہ آپ کا عظیم مرتبہ، جلالت اور تکریم کا اظہار ہو ۔
[الفصول المهمة في معرفة الائمة
پدید آورنده : علی بن محمد بن أحمد المالکی المکی
سایر پدیدآورندگان : الغريري، سامي
ناشر : دارالحدیث
محل نشر : قم،تاریخ انتشار : 1379
نوبت چاپ :الاولی، ج 1 ص 171]
https://lib.eshia.ir/27471/1/171/%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%91%D9%81%D8%A9
(۸)امام عبدالرحمٰن بن عبدالسلام الصفوری الشافعی [المتوفي 894]
أن عليا ولدته امه بجوف الكعبة شرفها الله تعالي وهي فضيلة خصه الله تعالي بها.
حضرت علی رضی الله عنہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور یہ فضیلت خاص طور پر آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے مخصوص فر ما رکھی تھی۔
[الكتاب: نزهة المجالس ومنتخب النفائس
المؤلف: عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوري (ت ٨٩٤هـ)
الناشر: المطبعه الكاستلية – مصر
عام النشر: ١٢٨٣هـ ، ج 2 ص 159]
https://shamela.ws/book/28168/372
(۹)مؤرخ، حسين بن محمد بن الحسن الديار بكري [المتوفى 966]:
و في السنة الثلاثين من مولده صلي الله عليه وسلم ولد علي بن أبي طالب رضي الله عنه في الکعبة.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے تیس سال بعد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے
[الكتاب: تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس
المؤلف: حسين بن محمد بن الحسن الدِّيار بَكْري (ت ٩٦٦هـ)
الناشر: دار صادر – بيروت
الطبعة: ۔۔۔۔۔ ، ج1، ص 279]
https://shamela.ws/book/9784/278
(۱۰)معروف مؤرخ علي بن برهان الدين الحلبي الشافعي [المتوفى 1044]:
وفي السنة الثلاثين من مولده صلي الله عليه وسلم ولد علي بن أبي طالب کرم الله وجهه في الکعبة.
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے تیسویں سال علی کرم اللہ وجہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔
[الكتاب: السيرة الحلبية = إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون
المؤلف: علي بن إبراهيم بن أحمد الحلبي، أبو الفرج، نور الدين ابن برهان الدين (ت ١٠٤٤هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
الطبعة: الثانية – ١٤٢٧هـ ، ج3 ص 520]
https://shamela.ws/book/9873/1563
(۱۱)شاه ولي الله دهلوي [المتوفی 1176]:
و از مناقب وی رضی الله عنه که در حین ولادت او ظاهر شد یکی آن است که در جوف کعبه معظمه تولد یافت.
اور آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں سے ایک یہ بھی ہے جو وقت ولادت ظاہر ہوائی کہ آپ داخل کعبہ معظمہ پیدا ہوئے ۔
[إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء، ج 4 ص 262]


(۱۲)امیر محمد بن إسماعيل الصنعاني [المتوفى 1182]:
وأما مولده فولد بمکة المشرفة في البيت الحرام سنة ثلاثين من عام الفيل في اليوم الجمعة الثالث [عشر] من رجب.
اور ان کی ولادت مکہ مشرفہ میں داخل بیت الحرام تیس عامل الفیل یوم جمعہ تہرا رجب کو ہوئی ۔
[الروضة الندية شرح التحفة العلوية ، ص36]


(۱۳)مؤمن بن حسن بن مؤمن الشبلنجي الشافعي[المتوفى 1298ه]:
ولد (رضي الله عنه) بمكة داخل البيت الحرام على قول يوم الجمعة ثالث عشر رجب الحرام سنة ثلاثين من عام الفيل قبل الهجرة بثلاث و عشرين سنة و قيل بخمس و عشرين و قبل المبعث باثنتي عشرة سنة و قيل بعشر سنين و لم يولد في البيت الحرام قبله أحد سواه
آپ رضی اللہ عنہ مکہ میں داخل بیت الحرام بروز جمعہ تہرا رجب سنہ تیس عامل الفیل قبل کو پیدا ہوئے ۔
[نور الأبصار في مناقب آل بيت النبي المختار(ص)
تألیف:محمد محمد حسن شراب
الموضوع : أهل البيت
الناشر : دار القلم- دار الشامية ، ص156]
(۱۴) سلفی عالم صالح الغامدي:
أمه فاطمة بنت أسد بن هاشم بن عبد مناف. ولدته في جوف الکعبة
آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ہیں انہوں نے آپ کو کعبہ کے اندر جنم دیا ۔
[الاکتفاء في اخبار الخلفاء،الطبعة الاولى 1429ه. 2008م ط:الجامعة الاسلامية بالمدينة المنورة، ج 1 ص 480]




چودہ (۱۴)کے مبارک عدد پر اکتفا کرتے ہیں اگر تمام علماء اہل سنت کے اقوال نقل کرنے لگیں تو یہ کتابچہ ضخیم کتاب کی شکل اختیار کرلے گا، یہ ائمہ ،مؤرخین و محدثین علمائے اہل سنت کے اقوال تھے جنکی قدر و منزلت اہل سنت کے یہاں مسلم ہے۔
دل صاحب انصاف سے انصاف طلب ہے۔
کیا یہی انصاف ہے؟ کہ اگر علماء کا ایک گروہ ابن حزام کی کعبہ میں ولادت کا ذکر کرے تو وہ قابل قبول اور اگر علماء کا دوسرا گروہ امیرالمومنین علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کا ذکر کرے تو روایت موضوع منگڑھت ہوجائے! اس کی فقط ایک ہی وجہ ہے ہے بغض علیؑ جو کہ ماں کی خطاؤں کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری وجہ نہیں ہو سکتی یہاں تک علماء کے اقوال تھے۔
خانہ کعبہ میں حضرت علیؑ کی ولادت خبر متواتر سے ثابت ہے:
علماء اہل سنت نے امیرالمومنین علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کی تصریح کی ہے بلکہ اسے خبر متواتر تسلیم کیا ہے:
امام اہل سنت حاکم نیسابوری نے اس خبر کو متواتر کہا ہے :
"فقد تواترت الاخبار ان فاطمة بنت أسد ولدت أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه في جوف الكعبة”
متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہ کو کعبہ کے اندر جنم دیا۔
[المستدرك على الصحيحين للامام الحافظ أبي عبد الله الحاكم النيسابوري وبذيله التلخيص للحافظ الذهبي رحمهما الله طبعة مزيدة بفهرس الأحاديث الشريفة بإشراف د. يوسف عبد الرحمن المرعشلي الجزء الثالث دار المعرفة بيروت – لبنان ، ج3، ص483]

تواتر کی تصریح پر ایک ناصبی کا امام حاکم پر اعتراض:
حاکم کے اس قول سے ناصبیوں کے دل جل کر خاکسر ہو گئے حاکم کی رد میں ایک ناصبی لکھتا ہے :
(امام حاکم کو خود ایسا زبردست وہم ہوا ہے کہ جسکی کوئی مثال ہی نہیں ہے،حالانکہ امام حاکم کو اور بھی بڑے بڑے وہم ہوئے ہیں۔
امام حاکم نے متواتر خبروں سے علی رضی اللہ عنہ کا مولود کعبہ ہونا بیان کیا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہلسنت والجماعت کی کسی بھی حدیث یا تاریخ کی کتاب میں ایسی کوئی جھوٹی روایت بھی موجود نہیں ہے،سوائے ایک اکیلی روایت اور وہ بھی ضعیف ہے۔
تو پھر تواتر کہنا سراسر ظلم کی بات ھے۔ یا پھر زبردست وھم ھے۔ اور پھر امام حاکم میں شیعت بھی تھی۔ جسکا انکار ممکن نہیں۔
اس قول کو بطور دلیل پیش کرنا کم فہمی ہے کیونکہ حاکم یہاں تو تواتر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور فضائل علیؓ کے باب میں ایک بھی صحیح بلکہ صحیح تو دور ایک ضعیف روایت بھی پیش کرنے کی جرأت نہ کرسکے جس میں حاکم کے دعوے کی دلیل ہو تو فقط حاکم کے کہنے پر متواتر کون مانے؟
جب کہ حاکم کی تاریخ وفات ٤٠٥ ھجری ہے اب ایک واقعہ جو کہ حاکم کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے اس واقعہ کو حاکم کے کہنے پر تسلیم کرنا اور نہ صرف تسلیم بلکہ متواتر کہنا نا انصافی ہوگا
دوسری بات یہ کہ اس کے تواتر کے دعوے میں حاکم منفرد ہیں ان کے سوا محدثین میں سے کسی نے اس واقعہ کے تواتر کا دعویٰ نہیں کیا۔
تیسری اور اہم بات یہ کہ اہل علم جانتے ہیں کہ حاکم نیم شیعہ تھے اور ان کا تواتر کا دعویٰ اسی سلسلے کی ایک کڑی بھی ہوسکتا ہے۔)
امام حاکم کی تصریح کی ناصبی امنپوری کا اعتراض:
تنبیہ: امام حاکم رحمہ اللہ (المستدرک : 384/3)فرماتے ہیں کہ متواتر روایات سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مولود ِکعبہ ہونا ثابت ہے،لیکن یہ بات امام صاحب رحمہ اللہ کی خطا ہے،کیونکہ متواتر تو کیا اس مفہوم کی روایات ’’حسن‘‘یا ’’صحیح‘‘بھی نہیں۔
http://mazameen.ahlesunnatpk.com/moulood-e-kaaba/
امام حاکم کا مرتبہ:
اس سے پہلے کہ اشکالات کے جوابات دیں حاکم نیسابوری کے مقام و مرتبہ کو ائمہ اہل سنت کی زبانی ہی نقل کرتے ہیں:
ذہبی لکھتا ہے :
- الإمام الحافظ ، الناقد العلامة ، شيخ المحدثين ، أبو عبد الله بن البيع الضبي الطهماني النيسابوري ، الشافعي
- حدث عنه : الدارقطني وهو من شيوخه
- وصنف وخرج ، وجرح وعدل ، وصحح وعلل ، وكان من بحور العلم
- سمعت الخليل بن عبد الله الحافظ ذكر الحاكم وعظمه ، وقال : له رحلتان إلى العراق والحجاز ، الثانية في سنة ثمان وستين ، وناظر الدارقطني ، فرضيه ، وهو ثقة واسع العلم ، بلغت تصانيفه قريبا من خمسمائة جزء ، يستقصي في ذلك ، يؤلف الغث والسمين
- عن عبد الغافر بن إسماعيل قال : الحاكم أبو عبد الله هو إمام أهل الحديث في عصره
- واختص بصحبة الإمام أبي بكر الصبغي ، وكان الإمام يراجعه في السؤال والجرح والتعديل
- ولقد سمعت مشايخنا يذكرون أيامه ، ويحكون أن مقدمي عصره مثل أبي سهل الصعلوكي والإمام ابن فورك وسائر الأئمة يقدمونه على أنفسهم ، ويراعون حق فضله ، ويعرفون له الحرمة الأكيدة . ثم أطنب عبد الغافر في نحو ذلك من تعظيمه ، وقال : هذه جمل يسيرة هي غيض من فيض سيره وأحواله ، ومن تأمل كلامه في تصانيفه ، وتصرفه في أماليه ، ونظره في طرق الحديث أذعن بفضله ، واعترف له بالمزية [ ص: 171 ] على من تقدمه ، وإتعابه من بعده ، وتعجيزه اللاحقين عن بلوغ شأوه ، وعاش حميدا ، ولم يخلف في وقته مثله ، مضى إلى رحمة الله في ثامن صفر سنة خمس وأربعمائة
- قال أبو حازم عمر بن أحمد العبدويي الحافظ : سمعت الحاكم أبا عبد الله إمام أهل الحديث في عصره
- وسمعت السلمي يقول : سألت الدارقطني : أيهما أحفظ : ابن منده أو ابن البيع ؟ فقال : ابن البيع أتقن حفظا .
- قال أبو حازم : أقمت عند أبي عبد الله العصمي قريبا من ثلاث سنين ، ولم أر في جملة مشايخنا أتقن منه ولا أكثر تنقيرا ، وكان إذا أشكل عليه شيء ، أمرني أن أكتب إلى الحاكم أبي عبد الله ، فإذا ورد جواب كتابه ، حكم به ، وقطع بقوله .
- قال ابن طاهر : سألت سعد بن علي الحافظ عن أربعة تعاصروا : أيهم أحفظ ؟ قال : من ؟ قلت : الدارقطني ، وعبد الغني ، وابن منده ، والحاكم . فقال : أما الدارقطني فأعلمهم بالعلل ، وأما عبد الغني فأعلمهم بالأنساب ، وأما ابن منده فأكثرهم حديثا مع معرفة تامة ، وأما الحاكم فأحسنهم تصنيفا .
- قال ابن طاهر : ورأيت أنا حديث الطير جمع الحاكم بخطه في جزء ضخم ، فكتبته للتعجب
- فقال أبو علي : لا تفعل ، فما رأيت أنت ولا نحن في سنه مثله ، وأنا أقول : إذا رأيته رأيت ألف [ ص: 177 ] رجل من أصحاب الحديث .
- امام، حافظ، احادیث کا محقق، علامہ محدثین کا بزرگ دارقطنی نے اس کے استاد ہونے کے بعد بھی اس سے روایت نقل کی، تصنیف و (احادیث کی )تخریج کرنے والا (راویوں کے متعلق )جرح و تعدیل کرنے والا،(سقیم)و صحیح و علل حدیث کا ماہر علم کا سمندر۔
- خلیل بن عبداللہ نے کہا اس وہ ثقہ بہت زیادہ علم رکھنے والا تھا اس کی تصانیف کی تعداد پانچ سو کے قریب پہنچی، عبدالغفار نے کہا حاکم ابو عبداللہ اپنے زمانے میں اہل حدیثوں کا امام تھا۔
- امام ابوبکر صبغی راویوں پر جرح و تعدیل کے باب میں حاکم کی طرف رجوع کرتا تھا۔
- میں نے اپنے مشائخ سے سنا ہے کہ وہ حاکم کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اس دور کے کے بزرگان جیسے ابو سہل صعلوکی، امام ابن فورک اور تمام ائمہ حاکم کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے اس کے فضل و کمال و اس کی حرمت سے خوب آگاہ تھے۔
- ابو حازم عمر بن أحمد عبدوی کہتا ہے میں نے سنا حاکم ابو عبداللہ سے جو اپنے وقت اہل حدیثوں کا امام تھا۔
- سلمی کا بیان ہے کہ میں نے دارقطنی سے پوچھا ابن مندہ وہ ابن البیع (حاکم )میں کون بڑا حافظ اس نے کہا ابن البیع متقن حافظ ہے۔
- ابو حازم کہتا ہے میں تین سال کے قریب ابو عبداللہ عصمی کے پاس مقیم رہا میں نے اپنے مشائخ میں کسی کو بھی اس کے برابر نہیں دیکھا جب بھی اسے کسی مسئلے میں شک ہوتا تو مجھے حکم دیتا کہ اسے لکھ کر حاکم کی سے دریافت کروں اور جب اس کے خط کا جواب آتا تو اس ہی پر حکم کرتا و یقین کرتا
- ابن طاہر کہتا ہے :”میں نے حافظ سعد بن علی سے پوچھا چار حافظ حدیث ہم عصر ہیں ،ان میں بڑا حافظ حدیث کون ہے؟کہنے لگا وہ کون ہیں؟میں نے کہا کہ بغداد میں دارقطنی،مصر میں عبدالغنی،اصفہان میں ابن مندہ،اور نیشاپور میں حاکم،تو کہا دارقطنی علل حدیث ہےکا،عبدالغنی انساب کا بڑا عالم ہے،ابن مندہ پے پاس حدیث کا زیادہ علم ہے اور اسے اس فن میں معرفت تامہ حاصل ہےاور حاکم تصنیف میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔
- ابن طاہر کا بیان ہے کہ میں نے حاکم کے ہاتھ سے لکھا اس کا جمع کردہ حدیث طیر کا ضخیم جزء دیکھا۔
- میں کہتا ہوں تونے اسے دیکھا گویا ایسا ہے کہ جیسے ایک ہزار علماء حدیث کو دیکھا۔
- یہ حاکم کے وہ مناقب تھے جنہے ائمہ اہل سنت میں بیان کیا طوالت کے خوف سے اس ہی پر اکتفا کرتے ہیں، قابل غور امر یہ ہے کہ حاکم کی پانچ سو میں سے چند کتابوں کے سوا سب ضائع ہو گئیں تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا یہ دعوی بغیر دلیل کے ہے شاہد مثال حدیث طیر ہی ہے بقول ابن طاہر یہ ایک ضخیم مجموعہ تھا جو آج ندارد ہے۔
[سير أعلام النبلاء
[الذهبي – شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي
مؤسسة الرسالة
سنة النشر: 1422هـ / 2001م ج17 ص 362]
https://islamweb.net/ar/library/index.php?page=bookcontents&idfrom=4046&idto=4046&bk_no=60&ID=3905
سوال یہ ہے کہ کیا اس مقام و مرتبہ کا امام جھوٹ بولتا ہے کہ بغیر کسی دلیل کے تواتر کا جھوٹا دعوی کر سکتا ہے؟ یہ وہم و گمان تو ہرگز نہیں کیا جاسکتا ۔یا حاکم اپنے دعوے میں سچا تھا یا جھوٹا اور ناصبیوں کی اس سے بھی زیادہ بڑی مشکل ذہبی کا حاکم کی تحقیق کو تسلیم کرنا ہے۔ کیا تقیہ باز ناصبیوں میں اتنی جرات ہے کہ ان دونوں کو جھوٹا کہہ سکیں؟
حضرت علیؑ کی خانہ کعبہ میں ولادت پر حدیث:
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ولادت بیت اللہ میں ہونے کے متعلق نہ فقط علماء کی تصریحات ہیں بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحیح سند حدیث موجود ہے جسکو امام اہل سنت محمد بن یوسف کنجی نے متصل سند سے بیان کیا ہے لکھتے ہیں:
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺍﻟﺸﻴﺦ ﺍﻟﻤﻘﺮﻱ ﺃﺑﻮ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ ﺑﻦ ﺑﺮﻛﺔ ﺍﻟﻜﺘﺒﻲ ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪﻩ ﺑﻤﺪﻳﻨﺔ ﺍﻟﻤﻮﺻﻞ ﻭﻣﻮﻟﺪﻩ ﺳﻨﺔ « 554 ﻫـ » ، ﻗﺎﻝ : ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺍﻟﻌﻼﺀ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺍﻟﻌﻄﺎﺭ ﺍﻟﻬﻤﺪﺍﻧﻲ ﺇﺟﺎﺯﺓ ﻋﺎﻣﺔ ﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﺧﺎﺻﺔ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺍﻟﻔﺎﺭﺳﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺍﻟﺨﻄﺎﺑﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺍﻟﺤﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﻨﻬﺎﻝ ﻋﻦ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺮﻭﺍﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﺍﻟﻐﻨﻮﻱ ﻋﻦ ﺷﺎﺫﺍﻥ ﺑﻦ ﺍﻟﻌﻼﺀ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻌﺰﻳﺰ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺼﻤﺪ ﻋﻦ ﻣﺴﻠﻢ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﺍﻟﻤﻜﻲ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﺎﻟﺰﻧﺠﻲ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺍﻟﺰﺑﻴﺮ ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ : ﺳﺄﻟﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻦ ﻣﻴﻼﺩ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ، ﻓﻘﺎﻝ : « ﻟﻘﺪ ﺳﺄﻟﺘﻨﻲ ﻋﻦ ﺧﻴﺮ ﻣﻮﻟﻮﺩ ﻭُﻟِﺪَ ﻓﻲ ﺷﺒﻪ ﺍﻟﻤﺴﻴﺢ ، ﺇﻥّ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﺒﺎﺭﻙ ﻭﺗﻌﺎﻟﻰ ﺧﻠﻖ ﻋﻠﻴﺎً ﻣﻦ ﻧﻮﺭﻱ ﻭﺧﻠﻘﻨﻲ ﻣﻦ ﻧﻮﺭﻩ ﻭﻛﻼﻧﺎ ﻣﻦ ﻧﻮﺭ ﻭﺍﺣﺪ، ﺛﻢ ﺇﻥّ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻧﻘﻠﻨﺎ ﻣﻦ ﺻُﻠﺐ ﺁﺩﻡ ﻓﻲ ﺃﺻﻼﺏ ﻃﺎﻫﺮﺓ ﺇﻟﻰ ﺃﺭﺣﺎﻡ ﺯﻛﻴﺔ ﻓﻤﺎ ﻧﻘﻠﺖ ﻣﻦ ﺻﻠﺐ ﺇﻻ ﻭﻧُﻘِﻞَ ﻋﻠﻲٌ ﻣﻌﻲ ﻓﻠﻢ ﻧﺰﻝ ﻛﺬﻟﻚ ﺣﺘﻰ ﺍﺳﺘﻮﺩﻋﻨﻲ ﺧﻴﺮَ ﺭﺣﻢ ٍﻭﻫﻲ ﺁﻣﻨﺔ، ﻭﺍﺳﺘﻮﺩﻉ ﻋﻠﻴﺎً ﺧﻴﺮَ ﺭﺣﻢ ٍﻭﻫﻲ ﻓﺎﻃﻤﺔ ﺑﻨﺖ ﺃﺳﺪ، ﻭﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻧﻨﺎ ﺭﺟﻞ ﺯﺍﻫﺪ ﻋﺎﺑﺪ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺍﻟﻤﺒﺮﻡ ﺑﻦ ﺩﻋﻴﺐ ﺑﻦ ﺍﻟﺸﻘﺒﺎﻥ ﻗﺪ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻣﺄﺗﻴﻦ ﻭﺳﺒﻌﻴﻦ ﺳﻨﺔ، ﻟﻢ ﻳﺴﺄﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺣﺎﺟﺔ ﻓﺒﻌﺚ ﺍﻟﻠﻪ ﺇﻟﻴﻪ ﺃﺑﺎ ﻃﺎﻟﺐ، ﻓﻠﻤﺎ ﺃﺑﺼﺮﻩ ﺍﻟﻤﺒﺮﻡ ﻗﺎﻡ ﺇﻟﻴﻪ، ﻭﻗَﺒَّﻞَ ﺭﺃﺳﻪ ﻭﺃﺟﻠﺲ ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻳﻪ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ ﻟﻪ : ﻣﻦ ﺃﻧﺖ؟ ﻓﻘﺎﻝ : ﺭﺟﻞٌ ﻣﻦ ﺗﻬﺎﻣﺔ، ﻓﻘﺎﻝ : ﻣﻦ ﺃﻱ ﺗﻬﺎﻣﺔ؟ ﻓﻘﺎﻝ : ﻣﻦ ﺑﻨﻲ ﻫﺎﺷﻢ، ﻓﻮﺛﺐ ﺍﻟﻌﺎﺑﺪ ﻓﻘﺒَّﻞ ﺭﺃﺳﻪ ﺛﺎﻧﻴﺔ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ : ﻳﺎ ﻫﺬﺍ ﺇﻥّ ﺍﻟﻌﻠﻲ ﺍﻷﻋﻠﻰ ﺃﻟﻬﻤﻨﻲ ﺇﻟﻬﺎﻣﺎً، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻟﺐ : ﻭﻣﺎ ﻫﻮ؟ ﻗﺎﻝ : ﻭﻟﺪ ﻳﻮﻟﺪ ﻣﻦ ﻇﻬﺮﻙ ﻭﻫﻮ ﻭﻟﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ، ﻓﻠﻤﺎ ﻛﺎﻧﺖ ﺍﻟﻠﻴﻠﺔ ﺍﻟﺘﻲ ﻭُﻟِﺪَ ﻓﻴﻬﺎ ﻋﻠﻲٌ ﺃﺷﺮﻗﺖ ﺍﻷﺭﺽ، ﻓﺨﺮﺝ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻟﺐ، ﻭﻫﻮ ﻳﻘﻮﻝ : ﺃﻳﻬﺎ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻭُﻟِﺪَ ﻓﻲ ﺍﻟﻜﻌﺒﺔ ﻭﻟﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ، ﻓﻠﻤﺎ ﺃﺻﺒﺢ ﺩﺧﻞ ﺍﻟﻜﻌﺒﺔ.
حضرت جابر بن عبدالله علیہما الرحمہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے امیرالمومنین علیہ السلام کی ولادت کے متعلق سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک تم نے بہترین مولود کے متعلق مجھ سے پوچھا ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح پیدا ہوئے، اللہ سبحانہ تعالی نے علی کو میرے نور سے اور مجھ کو اس کے نور سے اور ہم دونوں کو ایک ہی نور سے خلق کیا اس کے بعد اللہ سبحانہ تعالی نے ہم کو آدم علیہ السلام کی صلب سے طیب و طاہر صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں منتقل کیا پس میں کسی صلب میں منتقل نہیں ہوا مگر یہ کہ علی (علیہ السلام ) میرے ساتھ تھے پس یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ میں بہترین رحم میں منتقل ہوا اور وہ آمنہ (علیہا السلام ) تھیں اور علی (علیہ السلام ) بھی بہترین رحم میں منتقل ہوئے اور وہ فاطمہ بنت اسد (علیہما السلام )تھیں اور ہمارے زمانے میں ایک زاہد و عابد شخص تھا جس کو مبرم بن دعیب بن شقبان کہا جاتا تھا اس نے اللہ سبحانہ تعالی کی عبادت 270 سال تک کی اور اللہ سے کسی چیز کا سوال نہیں کیا پس اللہ سبحانہ تعالی نے اس کی طرف ابو طالب (علیہ السلام )کو بھیجا پس جیسے ہی مبرم کی نظر ان ان پر گی (ان کے احترام میں) اٹھا اور ان کی طرف بڑھ کر سر کا بوسہ لیا اور ان کو اپنے سامنے بیٹھایا پھر ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ تہامہ کا ایک آدمی پھر اس نے پوچھا کون سے تہامہ سے فرمایا بنی ہاشم سے، پس پھر عابد نے دوبارہ آپ کے سر کو چوما اور کہا اے شخص بلند و بالا (اللہ سبحانہ تعالی ) نے مجھے الہام کیا ہے ابو طالب (علیہ السلام )نے فرمایا کیسا الہام ،کہا تمہاری پشت سے ایک بیٹا ہوگا تو وہ اللہ عزوجل کا ولی ہوگا، پس جس رات علی (علیہ السلام )کی ولادت ہوئی تو تو زمین نورانی ہو گئ، پس ابوطالب (علیہ السلام ) نکلے اور کہا اے لوگوں کعبے میں اللہ کا ولی پیدا ہو گیا، اور جب صبح ہوئی تو کعبہ میں داخل ہوئے۔
[كفاية الطالب في مناقب علي بن أبي طالب
تألیف:الگنجي الشافعي، محمد بن يوسف
الموضوع : أهل البيت
الناشر : دار إحياء تراث أهل البيت عليهم السلام ،ج1 ص406]

کنجی شافعی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس امر کی وضاحت کر دی ہے کہ وہ کتاب میں فقط وہی صحیح احادیث نقل کریگا جو اسنے مختلف شہروں میں اپنے مشايخ سے سنیں جوکہ ائمہ و حفاظ کی کتب میں موجود ہیں۔
ﺇﻣﻼﺀ ﻛﺘﺎﺏٍ ﻳﺸﺘﻤﻞ ﻋﻠﻰ ﺑﻌﺾ ﻣﺎ ﺭﻭﻳﻨﺎﻩ ﻋﻦ ﻣﺸﺎﻳﺨﻨﺎ ﻓﻲ ﺍﻟﺒﻠﺪﺍﻥ، ﻣﻦ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﺻﺤﻴﺤﺔٍ ﻣﻦ ﻛﺘﺐ ﺍﻷﺋﻤّﺔ ﻭﺍﻟﺤُﻔّﺎﻅ ﻓﻲ ﻣﻨﺎﻗﺐ ﺃﻣﻴﺮ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻋﻠﻲٍّ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴّﻼﻡ
[كفاية الطالب في مناقب علي بن أبي طالب
تألیف:الگنجي الشافعي، محمد بن يوسف
الموضوع : أهل البيت
الناشر : دار إحياء تراث أهل البيت عليهم السلام ،ج1 ص37]
https://lib.eshia.ir/86841/1/37


اہلسنت کے یہاں صحیح حدیث کا اصول:
اہل سنت کے یہاں یہ اصول ہے کہ حدیث کی تصحیح اس کے راویوں کی توثیق ہوتی ہے۔
ذہبی لکھتا ہے:
الثقة: مَن وثَّقَه كثيرٌ، ولم يُضعَّف. ودُونَه: مَن لم يُوَثَّق ولا ضُعِّف. فإن خُرِّج حديثُ هذا في الصحيحين، فهو مُوَثَّق بذلك. وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة، فجيِّدٌ أيضاً. وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه.”
"ثقہ وہ ہے جسے اکثریت ثقہ کہے، اور اس کی تضعیف نہ کی گئی ہو۔ اُس سے کم درجے میں وہ ہے جس کی نہ توثیق کی گئی اور نہ تضعیف، پس اگر ایسے شخص کی حدیث اگر صحیحین میں مروی ہو تو اس وجہ سے وہ اس کی توثیق ہو گی، اور اگر اس کی حدیث کی ترمذی، اور ابن خزیمہ تصحیح کریں تو وہ بھی اسی طرح جید ہو گی، اور اگر الدارقطنی اور الحاکم اس کی حدیث کی تصحیح کریں تو اس کا کم سے کم حال یہ ہو گا کہ وہ حسن الحدیث ٹھہرے گا”۔
[ الكتاب: الموقظة في علم مصطلح الحديث
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (ت ٧٤٨هـ)
اعتنى به: عبد الفتاح أبو غُدّة
الناشر: مكتبة المطبوعات الإسلامية بحلب
الطبعة: الثانية، ١٤١٢ هـ ص 78]
https://al-maktaba.org/book/8195/57
حدیث کے راوی:
(۱)ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﻄﺎﺋﻔﻲ:
ابن حجرﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﻄﺎﺋﻔﻲ کے متعلق لکھتا ہے :
"قلت صحّح بن خُزَيْمَة حَدِيثه وَمُقْتَضَاهُ أَن يكون عِنْده من الثِّقَات”
"میں کہتا ہوں: ابن خزیمۃ نے ان کی حدیث کی تصحیح کی ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ اس کے نزدیک ثقات میں سے تھا۔
[الكتاب: تعجيل المنفعة بزوائد رجال الأئمة الأربعة
المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢هـ)
المحقق: د. إكرام الله إمداد الحق
الناشر: دار البشائر ـ بيروت
الطبعة: الأولى ـ ١٩٩٦م ج1 ص 793] https://shamela.ws/book/1893/1037
محمد بن یوسف شافعی پر شیعہ ہونے کے الزام کا ازالہ:
محمد بن یوسف شافعی کے متعلق ناصبیوں نے یہ افترا پردازی کی کہ وہ شیعہ تھا لحاظہ اس کی بیان کردہ روایات قابل قبول نہیں، ان شاء اللہ محدثین اہل سنت کے بنائے ہوئے اصولوں پر ہی ثابت کریں گے کہ نہ فقط کنجی شافعی مذہب اہلسنت پر تھا بلکہ ائمہ اہل سنت میں اس کا شمار ہوتا تھا۔
چنانچہ کنجی کا ہم عصر اور ساتھی محدث امام علاءالدین علی بن مظفر کندی لکھتا ہے:
ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﻌﺎﻟﻢ ﺍﻟﺤﺎﻓﻆ ﻓﺨﺮ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﻨﻮﻓﻠﻲ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﺎﻟﻜﻨﺠﻲ
[الرسالة للإمام المطلبي محمد بن إدريس الشافعي 150 – 204 عن أصل بخط الربيع بن سلمان كتبه في حياة الشافعي لما نظرت الرسالة للشافعي أذهلتني، لأنني رأيت رجل عاقل فصيح ناصح، فإني لأكثر الدعاء له.
عبد الرحمن بن مهدي بتحقيق وشرح أحمد محمد شاكر،ص 61]
کنجی کو ان القاب سے نوازنے والا کندی خود بھی علمائے اہل سنت میں بڑے مقام و مرتبہ والا امام و عالم ہے کہ جو متعدد علوم میں مہارت رکھنے کے سبب قابل احترام شخصیت شمار ہوتا ہے چنانچہ ابن کثیر نے اس کے محاسن کا تذکرہ کیا ہے لکھتا ہے :
الشَّيْخُ الْإِمَامُ الْمُقْرِئُ الْمُحَدِّثُ النَّحْوِيُّ الْأَدِيبُ عَلَاءُ الدِّينِ عَلِيُّ بن المظفر بن إبراهيم بن عمر ابن زَيْدِ بْنِ هِبَةِ اللَّهِ الْكِنْدِيُّ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ، ثُمَّ الدِّمَشْقِيُّ، سَمِعَ الْحَدِيثَ عَلَى أَزْيَدَ مِنْ مِائَتَيْ شَيْخٍ وَقَرَأَ الْقِرَاءَاتِ السَّبْعَ، وَحَصَّلَ عُلُومًا جَيِّدَةً، وَنَظَمَ الشِّعْرَ الْحَسَنَ الرَّائِقَ الْفَائِقَ، وَجَمَعَ كِتَابًا فِي نَحْوٍ مَنْ خَمْسِينَ مُجَلَّدًا، فِيهِ عُلُومٌ جمة أكثرها أدبيات سماها التَّذْكِرَةَ الْكِنْدِيَّةَ، وَقَفَهَا بِالسُّمَيْسَاطِيَّةِ وَكَتَبَ حَسَنًا وَحَسَبَ جَيِّدًا، وَخَدَمَ فِي عِدَّةِ خِدَمٍ، وَوَلِيَ مَشْيَخَةَ دَارِ الْحَدِيثِ النَّفِيسِيَّةِ فِي مُدَّةِ عَشْرِ سِنِينَ وَقَرَأَ صَحِيحَ الْبُخَارِيِّ مَرَّاتٍ عَدِيدَةً، وَأَسْمَعَ الْحَدِيثَ، وَكَانَ يَلُوذُ بِشَيْخِ الْإِسْلَامِ ابْنِ تَيْمِيَّةَ، وَتُوُفِّيَ ببستان عند قبة المسجد لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ سَابِعَ عَشَرَ رَجَبٍ، وَدُفِنَ بِالْمِزَّةِ عَنْ سِتٍّ وَسَبْعِينَ سَنَةً.
[الكتاب: البداية والنهاية
المؤلف: عماد الدين أبو الفداء إسماعيل بن عمر القرشي الدمشقي المعروف بـ (ابن كثير) (ت ٧٧٤ هـ)
طبع: مطبعة السعادة – القاهرة
(الجزء الأول فقط، طبع مطبعة كردسان العلمية بمصر، لصاحبها فرج الله الكردي)
الطبعة: الأولى، ١٣٤٨ – ١٣٥٨ هـ ،ﺝ 14 ص 78]
https://shamela.ws/book/23708/4672
(۲) ابو شامہ مقدسی لکھتا ہے:
ﺍﻟﻔﺨﺮ ﻣﺤﻤّﺪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ ﺑﻦ ﻣﺤﻤّﺪ ﺍﻟﻜﻨﺠﻲ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﺑﺎﻟﻔﻘﻪ ﻭﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻟﻜﻨﻪ ﻛﺎﻥ ﻓﻴﻪ ﻛﺜﺮﺓ ﻛﻼﻡ، ﻭﻣﻴﻞ ﺇﻟﻰ ﻣﺬﻫﺐ ﺍﻟﺮﺍﻓﻀﺔ، ﺟﻤﻊ ﻟﻬﻢ ﻛﺘﺒﺎً ﺗﻮﺍﻓﻖ ﺃﻏﺮﺍﺿﻬﻢ، ﻭﺗﻘﺮّﺏ ﺑﻬﺎ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺮﺅﺳﺎﺀ ﻣﻨﻬﻢ ﻓﻲ ﺍﻟﺪﻭﻟﺘﻴﻦ ﺍﻹﺳﻼﻣﻴﺔ ﻭﺍﻟﺘﺎﺗﺎﺭﻳﺔ،
[اﻟﺬﻳﻞ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺮﻭﺿﺘﻴﻦ ص 208]
فخر محمد بن یوسف بن محمد کنجی اور وہ فقہ و حدیث کے عالموں میں سے تھا مگر اس کے متعلق بہت کلام کیا گیا ہے اس کا میلان مذہب رافضہ کی طرف تھا ان نے ایک کتاب بھی لکھی جو ان کی غرائض کے موافق تھی اور اس کے سبب اس نے دونوں حکومتوں کا تقرب حاصل کیا اسلامی اور تاتری، ابو شامہ نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ وہ فقہ و حدیث کا عالم تھا، رہی بات اس پر کلام کرنے والوں کی تو مشخص نہیں کلام کرنے والے کون تھے، اور جہاں تک تہمت رافضیوں سے میلان کی ہے وہ بھی جھوٹ ہے اس کا جواب آخر میں مفصل دیا جائے گا، ابو شامہ نے کتاب کا نام بھی ذکر نہیں کیا تاکہ معلوم ہوتا اس کی مراد کون سی کتاب ہے کیونکہ اس کی کتب میں کوئی نئی چیز نہیں تھی جو اس نے لکھی ہو بلکہ اس سے پہلے ائمہ اہل سنت اپنی کتب میں ان مضامین کی احادیث کو نقل کر چکے تھے، اور یہ بات بھی کذب محض ہے کہ اس کتاب کے ذریعے اس نے روافض و اسلامی و تاتری حکومت کا تقرب حاصل کیا نہ تو شیعہ اس وقت قدرت میں تھے کہ کتاب کے سبب ان سے نفع حاصل کرتا اور نہ ہی وہ دونوں حکومتیں شیعہ پرور تھی کہ کتاب کے سبب ان سے تقرب حاصل کیا جاتا بلکہ وہ دور شیعان حیدر کرار علیہ السلام کی آزمائش کا دور تھا۔
(۳) یونینی متوفی 726 لکھتا ہے:
الفخر محمد بن يوسف الكنجي كان رجلاً فاضلاً أديباً وله نظم حسن قتل في جامع دمشق بسبب دخوله مع نواب التتر ومن شعره في أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه وعلى آله:
وكان على أرمد العين يبتغي … دواء فلما لم يحس مداويا
شفاه رسول الله منه بتفلة … فبورك مرقياً وبورك راقيا
وقال سأعطي الراية اليوم فارساً … كمياً شجاعاً في الحروب محاميا
يحب الآله والآله يحبه … به يفتح الله الحصون كما هيا
فخص به دون البرية كلها … عليا وسماه الوصي المواخيا
رحمه الله وإيانا:
فخر محمد بن یوسف کنجی فاضل و ادیب انسان تھا تاتار کے نائب کے ساتھ وارد دمشق ہوا اس سبب قتل کیا گیا اور اس نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام ) رضی اللہ عنہ و آلہ اشعار کہے، ،،،،،،،،، اس پر اور ہم پر اللہ کی رحمت ہو ۔
[الكتاب: ذيل مرآة الزمان
المؤلف: قطب الدين أبو الفتح موسى بن محمد اليونيني (ت ٧٢٦ هـ)
بعناية: وزارة التحقيقات الحكمية والأمور الثقافية للحكومة الهندية
الناشر: دار الكتاب الإسلامي، القاهرة
الطبعة: الثانية، ١٤١٣ هـ – ١٩٩٢ م ،ج1 ص 392]
http://islamport.com/w/tkh/Web/379/148.htm
(۴)محمد بن احمد صالحي متوفي 744
نے کنجی کا شمار علماء حدیث میں کیا ہے اور اس کے لئے رحمت کی دعا بھی کی ہے:
والمحدِّث فخر الدِّين محمد بن يوسف الكنْجي، قُتِل بجامع دمشق (٤) ، وآخرون، رحمهم الله تعالى.
[الكتاب: طبقات علماء الحديث
المؤلف: أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عبد الهادي الدمشقي الصالحي (ت ٧٤٤ هـ)
تحقيق: أكرم البوشي، إبراهيم الزيبق
الناشر: مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت – لبنان
الطبعة: الثانية، ١٤١٧ هـ – ١٩٩٦ م ،ج 4 ص 226]
https://shamela.ws/book/1994/1710
(۵) ذہبی نے اس کو حفاظ حدیث میں شمار کیا اور فائدہ مند محدث کہا ہے :
والمحدث المفيد فخر الدين محمد بن يوسف الكنجي قتل بجامع دمشق لدبره وفضوله،
[الكتاب: تذكرة الحفاظ
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (ت ٧٤٨ هـ)
وضع حواشيه: زكريا عميرات
الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت-لبنان
الطبعة: الأولى، ١٤١٩ هـ- ١٩٩٨ م ،ﺝ 4 ص 156]
https://shamela.ws/book/1583/950
اپنی دوسری کتاب تاریخ اسلام میں لکھتا ہے :
٤٦٩- محمد بْن يوسف بْن محمد. الفَخْرُ الكنجيّ، نزيل دمشق.
عُنِي بالحديث، وسمع الكثير، ورحل وحصّل
محمد بن یوسف بن محمد فخر کنجی دمشق میں اترا (سکونت پذیر ہوا)حدیث کو توجہ دینے والا بہت ساروں سے حدیث سنے والا طلب حدیث کے لے سفر کرنے والا اور (علم ) حاصل کرنے والا تھا ۔
[الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (ت ٧٤٨هـ)
المحقق: عمر عبد السلام التدمري
الناشر: دار الكتاب العربي، بيروت
الطبعة: الثانية، ١٤١٣ هـ – ١٩٩٣ م ،ج 14 ص 368-369]
https://shamela.ws/book/12397/22528
(۶)صفدی لکھتا ہے :
٣ – (الْفَخر الكنجي)
مُحَمَّد بن يُوسُف بن مُحَمَّد بن الْفَخر الكنجي نزيل دمشق عني بِالْحَدِيثِ وَسمع ورحل)
وَحصل كَانَ إِمَامًا مُحدثا لكنه كَانَ يمِيل إِلَى الرَّفْض جمع كتبا فِي التَّشَيُّع وداخل التتار فَانْتدبَ لَهُ من تأذى مِنْهُ فبقر جنبه بالجامع فِي سنة ثَمَان وَخمسين وست مائَة وَله شعر يدل على تشيعه وَهُوَ
(وَكَانَ عَليّ أرمد الْعين يَبْتَغِي … دَوَاء فَلَمَّا لم يحس مداويا)
(شفَاه رَسُول الله مِنْهُ بتفلة … فبورك مرقياً وبورك راقيا)
(وَقَالَ سأعطي الرَّايَة الْيَوْم فَارِسًا … كمياً شجاعاً فِي الحروب محاميا)
(يحب الْإِلَه والإله يُحِبهُ … بِهِ يفتح الله الْحُصُون كَمَا هيا)
(فَخص بهَا دون الْبَريَّة كلهَا … عليا وَسَماهُ الْوَصِيّ المؤاخيا)
محمد بن یوسف بن محمد بن الفخر الکنجی دمشق میں سکونت پذیر حدیث سے شغف رکھنے والا سماعت و حصول حدیث کے لئے سفر کرنے والا وہ امام و محدث تھا مگر یہ کہ اس کا میلان رفض کی طرف تھا اس نے تشیع کے متعلق کتابیں لکھیں، اور اس کے اشعار ہیں جو اس کی تشیع پر دلالت کرتے ہیں۔
[الكتاب: الوافي بالوفيات
المؤلف: صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (ت ٧٦٤هـ)
المحقق: أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى
الناشر: دار إحياء التراث – بيروت
عام النشر:١٤٢٠هـ- ٢٠٠٠م ،ج 2 ص 166]
https://shamela.ws/book/6677/1245
(۷)ابن صباغ مالکی متوفی 855:
ب ـ كفاية الطالب :
في مناقب الامام امير المؤمنين علي بن ابي طالب عليهالسلام ويقع في مائة باب ، وفيه أيضا ذكر المعقبين من أولاد امير المؤمنين ، وذكر من قتل مع الحسين عليهالسلام
ثم فصل خاص بذكر الائمة المهديين بصورة موجزة ، وقد صحح اكثر المترجمين له نسبة الكتاب هذا الى ابي عبد الله محمد بن يوسف الكنجي الشافعي
اور کتاب کفایت الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب تالیف ہے امام حافظ ابو عبداللہ محمد بن یوسف کنجی شافعی کی
[ﺍﻟﻔﺼﻮﻝ ﺍﻟﻤﻬﻤﺔ ص 111]
(۹)شوکانی نے بھی اسے شافعی تسلیم کیا ہے :
وأخرج محمد بن يوسف الكنجي الشافعي في. . . . . . . . . . . . . . . . . .
مناقبه (1) من حديث ذكره بسند متصل برسول الله- صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ-، وفيه في وصف علي- عليه السلام- ووعاء علمي، ووصيي.
[الكتاب: الفتح الرباني من فتاوى الإمام الشوكاني
المؤلف: محمد بن علي بن محمد بن عبد الله الشوكاني اليمني (ت ١٢٥٠ هـ)
حققه ورتبه: أبو مصعب «محمد صبحي» بن حسن حلاق [ت ١٤٣٨ هـ]
الناشر: مكتبة الجيل الجديد، صنعاء – اليمن ،ج 2 ص 973-974]
https://shamela.ws/book/36543/807
(۱۰)زرکلی کی تحقیق بھی یہی ہے کہ وہ شافعی تھا :
محمد بن يوسف بن محمد، أبو عبد الله بن الفخر الكنجي: محدث. من الشافعية نسبته الى (كنجة) بين أصبهان وخوزستان. نزل بدمشق. ومال الى التشيع، وصنف (كفاية الطالب في مناقب أمير المؤمنين علي بن أبي طالب – ط) و (البيان في أخبار صاحب الزمان – ط) (٢)
[الكتاب: الأعلام
المؤلف: خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (ت ١٣٩٦ هـ)
الناشر: دار العلم للملايين
الطبعة: الخامسة عشر – أيار / مايو ٢٠٠٢ م ،ﺝ 7 ص 150]
https://shamela.ws/book/12286/6384
رافضیف کی تہمت ناصبیوں کا حیلہ رہا ہے ،جب بھی کسی سنی عالم نے فصائل اہل بیت علیہم السلام میں احادیث بیان کی انہوں نے اس پر رافضی ہونے کی مہر لگا دی کنجی کوئی پہلا شخص نہیں جس پر یہ تہمت لگی ہو بلکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی کتنے علماء اہل سنت ہیں جن پر ناصبیوں نے رافضی ہونے کی تہمت لگائی، نسائ جیسے کٹر سنی محدث کو بھی شیعہ کہہ دیا گیا، کنجی شافعی کے امام اور ائمہ اربعہ اہل سنت میں سے ایک عظیم امام پر بھی حب اہل بیت علیہم السلام کے سبب رافضی ہونے کی تہمت لگائی گئی چنانچہ اس کے مشہور اشعار ہیں بیہقی شافعی سے نقل کرتا ہے:
إن كان رَفْضاً حبُّ آلِ محمدٍ … فَلْيَشْهَدِ الثقلانِ أني رافضي
اگر آل محمد کی محبت ہی رفض ہے تو دونوں جہاں جان لیں کہ میں رافضی ہوں
[الكتاب: مناقب الشافعي للبيهقي
المؤلف: أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي (٣٨٤ – ٤٥٨ هـ)
المحقق: السيد أحمد صقر
الناشر: مكتبة دار التراث – القاهرة
الطبعة: الأولى، ١٣٩٠ هـ – ١٩٧٠ م ،ج 2 ص 71]
https://shamela.ws/book/22797/662
طبری جیسا مورخ، محدث، مفسر بھی اس تہمت سے بچ نہ سکا اس پر بھی رافضیوں کے لئے حدیث گڑھنے کی تہمت لگائی گئی ابن حجر اس کے حالات میں لکھتا ہے:
ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﺴﻠﻴﻤﺎﻧﻲ ﺍﻟﺤﺎﻓﻆ ﻓﻘﺎﻝ ﻛﺎﻥ ﻳﻀﻊ ﻟﻠﺮﻭﺍﻓﺾ
احمد بن علی سلیمانی حافظ نے کہا کہ وہ( طبری ) رافضیوں کے لئے حدیث گڑھنے والا تھا۔
[الكتاب: لسان الميزان
المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢ هـ)
المحقق: دائرة المعرف النظامية – الهند
الناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت – لبنان
الطبعة: الثانية، ١٣٩٠ هـ – ١٩٧١ م،ﺝ 5 ص 100]
https://shamela.ws/book/12063/2391
حاکم نیسابوری :اس کے زمانے میں کوئی اس کا نظیر نہیں تھا بلکہ متعصب سنی تھا اس پر بھی خبیث رافضی ہونے کا الزام لگا ۔
ذہبی نے اس کے حالات میں ابو اسماعيل انصاری کا قول نقل کیا ہے:
قال ابن طاهر: سألت أبا إسماعيل الأنصاري عن الحاكم فقال: ثقة في الحديث رافضي خبيث
[الكتاب: تذكرة الحفاظ
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (ت ٧٤٨ هـ)
وضع حواشيه: زكريا عميرات
الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت-لبنان
الطبعة: الأولى، ١٤١٩ هـ- ١٩٩٨ م ،ج 3 ص 165]
https://shamela.ws/book/1583/701
بعض نے فضائل اہل بیت علیہم السلام میں لکھی اس کی کتابوں کے سبب اس کو شیعہ کہا ہے، یہ الزام نیا نہیں ہے یہ اتہام خصائص علی لکھنے کے سبب نسائ پر بھی لگ چکا ہے، اس کے شیعہ ہونے کی دوسری دلیل جو صفدی نے پیش کی وہ اشعار ہیں جن کی نسبت کنجی کی طرف دے کر اس کو شیعہ کہا درحقیقت وہ اشعار حسان ابن ثابت صحابی کے ہیں چنانچہ کنجی کی ولادت سے بھی بہت پہلے علماء ان کو اپنی کتب میں نقل کر چکے تھے ابن مغازلی مالکی نے اپنی معروف کتاب مناقب میں ان اشعار کو دارقطنی کی سند سے نقل کیا ہے۔ (المناقب ص 247)
کنجی پر کوئی بھی ایسی جرح نہیں جو ثابت ہو بلکہ اس سے پہلے بڑے بڑے ائمہ اہل سنت پر کفر کے فتوے لگ چکے ہیں جرح اس وقت قابل قبول ہے جب وہ مفسر ہو نووی لکھتا ہے :
لَا يُقْبَلُ الْجَرْحُ إلَّا مُفَسَّرًا
[الكتاب: المجموع شرح المهذب
المؤلف: أبو زكريا محيي الدين بن شرف النووي (ت ٦٧٦ هـ)
باشر تصحيحه: لجنة من العلماء
الناشر: (إدارة الطباعة المنيرية، مطبعة التضامن الأخوي) – القاهرة
عام النشر:١٣٤٤ – ١٣٤٧ هـ،ج 2 ص 582]
https://shamela.ws/book/2186/1110
خلاصہ یہ کہ علماء اہل سنت نے کنجی کو، امام ،حافظ، فقیہ، محدث مفید ، فخرالدین، اہل حدیث، عالم فاضل ،ادیب وغیرہ کے القاب سے نوازا ہے جیسا کہ علماء اہل سنت نے اسے امام تسلیم کیا ہے یہاں ذہبی کا ذکر کردہ قانون بیان کرنا بھی لطف سے خالی نہیں لکھا ہے:
إِذَا ثبتَتْ إِمَامَةُ الرَّجُلِ وَفَضْلُهُ، لَمْ يَضُرَّهُ مَا قِيْلَ فِيْهِ
اگر کسی شخص کی امامت ثابت ہوجائے تو پھر اگر اس کے متعلق کچھ کہا جائے تو وہ اسے نقصان نہیں پہنچاتا۔
[الكتاب: سير أعلام النبلاء
المؤلف: شمس الدين، محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (ت ٧٤٨ هـ)
تحقيق: حسين أسد (جـ ١، ٦)، شعيب الأرنؤوط (جـ ٢، ٥، ١٩، ٢٠)، محمد نعيم العرقسوسي (جـ ٣، ٨، ١٠، ١٧، ١٨، ٢٠)، مأمون الصاغرجي (جـ ٤)، علي أبو زيد (جـ ٧، ١٣)، كامل الخراط (جـ ٩)، صالح السمر (جـ ١١، ١٢)، أكرم البوشي (جـ ١٤، ١٦)، إبراهيم الزيبق (جـ ١٥)، بشار معروف (جـ ٢١، ٢٢، ٢٣)، محيي هلال السرحان (جـ ٢١، ٢٢، ٢٣)
بإشراف: شعيب الأرناؤوط [ت ١٤٣٨ هـ]
الناشر: مؤسسة الرسالة
الطبعة: الثالثة، ١٤٠٥ هـ – ١٩٨٥ م ،ج 8 ص 448]
https://shamela.ws/book/10906/5574
اسی طرح حافظ کے لقب سے بھی اس کے علم رجال و حدیث میں ماہر ہونے کا علم ہوتا ہے لفظ حافظ کے متعلق ابن حجر لکھتا ہے:
ﻓﻠﻠﺤﺎﻓﻆ ﻓﻲ ﻋﺮﻑ ﺍﻟﻤﺤﺪﺛﻴﻦ ﺷﺮﻭﻁ ﺇﺫﺍ ﺍﺟﺘﻤﻌﺖ ﻓﻲ ﺍﻟﺮﺍﻭﻱ ﺳﻤﻮﻩ ﺣﺎﻓﻈﺎ .
[ ﺷﺮﻭﻁ ﺍﻟﺘﺴﻤﻴﺔ ﺑﺎﻟﺤﺎﻓﻆ : ]
1 – ﻭﻫﻮ ﺍﻟﺸﻬﺮﺓ ﺑﺎﻟﻄﻠﺐ ﻭﺍﻷﺧﺬ ﻣﻦ ﺃﻓﻮﺍﻩ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﻻ ﻣﻦ ﺍﻟﺼﺤﻒ .
2 – ﻭﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺑﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﺮﻭﺍﺓ ﻭﻣﺮﺍﺗﺒﻬﻢ .
3 – ﻭﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺑﺎﻟﺘﺠﺮﻳﺢ ﻭﺍﻟﺘﻌﺪﻳﻞ، ﻭﺗﻤﻴﻴﺰ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ ﻣﻦ ﺍﻟﺴﻘﻴﻢ ﺣﺘﻰ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﺎ ﻳﺴﺘﺤﻀﺮﻩ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻤﺎ ﻻ ﻳﺴﺘﺤﻀﺮﻩ ﻣﻊ ﺍﺳﺘﺤﻀﺎﺭ ﺍﻟﻜﺜﻴﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﻤﺘﻮﻥ
حافظ عرف محدثین میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جس میں (یہ )شرطیں پای جاتی ہوں
1 وہ طلب حدیث میں شہرت رکھتا ہو خود راویوں سے حدیث سنتا ہو نہ کہ صفحات (کتابوں )سے نقل کرتا ہو۔
2 راویوں کے طبقات اور ان کے مراتب کا علم رکھتا ہو۔
3 اور (راویوں کی ) جرح و تعدیل اور صحیح و غیر صحیح (احادیث ) کا علم رکھتا ہو،پس کنجی پر تمام اعتراضات نردود و باطل قرار پائے۔
[الكتاب: النكت على كتاب ابن الصلاح
المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢هـ)
المحقق: ربيع بن هادي عمير المدخلي
الناشر: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية
عدد المجلدات: ٢
الطبعة: الأولى، ١٤٠٤هـ/١٩٨٤م،ج 1 ص 268]
https://shamela.ws/book/8316/243
حدیث کی تائید میں ابن مغازلی کی روایت:
اس حدیث کی تائید ابن مغازلی کی روایت سے بھی ہوتی ہے:
أخبرنا أبو طاهر محمد بن علي بن محمد البيع، قال: أخبرنا أبو عبد الله أحمد بن محمد بن عبد الله بن خالد الكاتب، قال: حدثنا أحمد بن جعفر بن محمد بن سلم الختلي قال: حدثني عمر بن أحمد بن روح، حدثني أبو طاهر يحيى بن الحسن العلوي، قال: حدثني محمد بن سعيد الدارمي حدثنا موسى بن جعفر، عن أبيه، عن محمد بن علي، عن أبيه علي بن الحسين، قال: كنت جالساً مع أبي ونحن زائرون قبر جدنا عليه السلام، وهناك نسوان كثيرة، إذ أقبلت امرأة منهن فقلت لها: من أنت يرحمك الله؟ قالت: أنا زيدة بنت قريبة بن العجلان من بني ساعدة. فقلت لها: فهل عندك شيئاً تحدثينا؟ فقالت: إي والله حدثتني أمي أم العارة بنت عبادة بن نضلة بن مالك بن عجلان الساعدي .. أنها كانت ذات يوم في نساءٍ من العرب إذ أقبل أبو طالب كئيباً حزيناً، فقلت له: ما شأنك يا أبا طالب؟ قال: إن فاطمة بنت أسد في شدة المخاض، ثم وضع يديه على وجهه. فبينا هو كذلك، إذ أقبل محمد صلى الله عليه وسلم فقال له: ((ما شأنك يا عم؟)) فقال: إن فاطمة بنت أسد تشتكي المخاض، فأخذ بيده وجاء وهي معه فجاء بها إلى الكعبة فأجلسها في الكعبة، ثم قال: ((اجلسي على اسم الله!)) قال: فطلقت طلقة فولدت غلاماً مسروراً، نظيفاً، منظفاً لم أر كحسن وجهه، فسماه أبو طالب علياً وحمله النبي صلى الله عليه وسلم حتى أداه إلى منزلها. قال علي بن الحسين عليهم السلام: فوالله ما سمعت بشيء قط إلا وهذا أحسن منه.
ام عارہ بنت عباد کہتی ہیں کہ ایک دن میں عرب عورتوں کے پاس تھی کہ ابو طالب مغموم و پریشان تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : ابوطالب! کیا ہوا؟وہ کہنے لگے : فاطمہ بنت ِاسد اس وقت سخت دردِ زِہ میں مبتلا ہیں۔یہ کہہ کر انہوں نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لئے۔اسی اثنا میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا : چچاجان کیامسئلہ ہے؟انہوں نے بتایا : فاطمہ بنت اسد دردِ زِہ سے دوچار ہیں۔ان کو کعبہ میں لا کر بٹھا دیا گیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : اللہ کا نام لے کر بیٹھ جائیے۔انہوں نے ایک خوش،صاف ستھرا اور حسین ترین بچہ جنم دیا۔ابو طالب نے اس کا نام علی رکھ دیا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کو اٹھا کر گھر لائے۔
[الكتاب: مناقب أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه
المؤلف: علي بن محمد بن محمد بن الطيب بن أبي يعلى بن الجلابي، أبو الحسن الواسطي المالكي، المعروف بابن المغازلي (ت ٤٨٣هـ)
المحقق: أبو عبد الرحمن تركي بن عبد الله الوادعي
الناشر: دار الآثار – صنعاء
الطبعة: الأولى ١٤٢٤ هـ – ٢٠٠٣ م، ص 26]
https://al-maktaba.org/book/31790/9

ابن مغازلی کی روایت پر ناصبی امنپوری کا رد:
اس روایت کو رد کرنے کے لئے امن پوری منافق لکھتا ہے :
(مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي، الرقم : 3)
تبصرہ: یہ جھوٹی روایت ہے،کیونکہ :
1 اس کا راوی ابو طاہر یحییٰ بن حسن علوی کون ہے، کوئی پتہ نہیں۔
2 محمد بن سعید دارمی کی توثیق درکار ہے۔
3 زیدہ بنت قریبہ کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔
4 ان کی ماں ام العارہ بنت ِعبادہ کون ہے، معلوم نہیں۔
پے در پے ’’مجہول‘‘راویوں کی بیان کردہ روایت کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے؟
دلیل نمبر 2 : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ :
’’خانہ کعبہ میں سب سے پہلے سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔۔۔۔۔اور بنو ہاشم میں سب سے پہلے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔‘‘
(أخبار مکّۃ للفاکھي : 198/3، الرقم : 2018)
تبصرہ: اس قول کی سند ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ امام فاکہی کے استاذ ابراہیم بن ابو یوسف کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔شریعت نے ہمیں ثقہ اور معتبر راویوں کی روایات کا مکلف ٹھہرایا ہے،نہ کہ مجہول اور غیر معتبر راویوں کے بیان کردہ قصے کہانیوں کا۔
http://mazameen.ahlesunnatpk.com/moulood-e-kaaba/
صحیح بخاری کی روایت میں مجہول راوی:
بخاری کو پوجنے والوں سے ایک چھوٹا سا سوال:
بخاری نے اپنی صحیح میں بھی مجہول افراد کے توسط سے روایت نقل کی ہے:
3642 – حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا شَبِيبُ بْنُ غَرْقَدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الحَيَّ يُحَدِّثُونَ، عَنْ عُرْوَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَعْطَاهُ دِينَارًا يَشْتَرِي لَهُ بِهِ شَاةً، فَاشْتَرَى لَهُ بِهِ شَاتَيْنِ، فَبَاعَ إِحْدَاهُمَا بِدِينَارٍ، وَجَاءَهُ بِدِينَارٍ وَشَاةٍ، فَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ فِي بَيْعِهِ، وَكَانَ لَوِ اشْتَرَى التُّرَابَ لَرَبِحَ فِيهِ»، قَالَ سُفْيَانُ: كَانَ الحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ جَاءَنَا بِهَذَا الحَدِيثِ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعَهُ شَبِيبٌ مِنْ عُرْوَةَ فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ شَبِيبٌ إِنِّي لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ عُرْوَةَ، قَالَ سَمِعْتُ الحَيَّ يُخْبِرُونَهُ عَنْهُ،
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا ہم سے شبیب بن غرقدہ نے بیان کیا کہ` میں نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے سنا تھا، وہ لوگ عروہ سے نقل کرتے تھے (جو ابوالجعد کے بیٹے اور صحابی تھے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دینار دیا کہ وہ اس کی ایک بکری خرید کر لے آئیں۔ انہوں نے اس دینار سے دو بکریاں خریدیں، پھر ایک بکری کو ایک دینار میں بیچ کر دینار بھی واپس کر دیا۔ اور بکری بھی پیش کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان کی تجارت میں برکت کی دعا فرمائی۔ پھر تو ان کا یہ حال ہوا کہ اگر مٹی بھی خریدتے تو اس میں انہیں نفع ہو جاتا۔ سفیان نے کہا کہ حسن بن عمارہ نے ہمیں یہ حدیث پہنچائی تھی شبیب بن غرقدہ سے۔ حسن بن عمارہ نے کہا کہ شبیب نے یہ حدیث خود عروہ رضی اللہ عنہ سے سنی تھی۔ چنانچہ میں شبیب کی خدمت میں گیا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے یہ حدیث خود عروہ سے نہیں سنی تھی۔ البتہ میں نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو ان کے حوالے سے بیان کرتے سنا تھا۔
[ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ،ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟْﻤَﻨَﺎﻗِﺐِ،28 ﺑَﺎﺏٌ ،حدیث 3642]
https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-bukhari/hadees-no-29337.html
اس حدیث پر بھی امن پوری ناصبی کا تبصرہ نقل کیا جائے:
(پے در پے ’’مجہول‘‘راویوں کی بیان کردہ روایت کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے؟
شریعت نے ہمیں ثقہ اور معتبر راویوں کی روایات کا مکلف ٹھہرایا ہے،نہ کہ مجہول اور غیر معتبر راویوں کے بیان کردہ قصے کہانیوں کا۔)
کیا منافق امن پوری یا دیگر منافقین بخاری کی اس روایت کو (جھوٹی )کہنے کی جرات رکھتے ہیں؟ اگر ایرے غیرے کی فضیلت تراشی جائے یا حلال و حرام کے مسائل میں کوئی روایت مجہول افراد سے نقل ہو کہ جنکے نام بھی معلوم نہوں بلکہ جنکا مسلمان ہونا بھی ثابت نہ ہو تو یہ منافقین صحیح صحیح کی رٹ لگا کر اس کو دل و جان سے قبول کر لیتے ہیں مگر اگر کوئی روایت اہل بیت علیہم السلام کی شان میں ہو تو اس کو رد کرنے کے لئے پوری قوت صرف کر دیتے ہیں جسکی وجہ فقط یہ ہے کہ یہ بات حدیثوں کی کتابوں میں بیاں ہے بغض علیؑ عقیدہ نہیں ماں کی خطا ہے۔
تاریخ موصل سے حدیث کی تائید:
ان روایات کی تائید مزید ابو زکریا کی روایت سے بھی ہوتی ہے:
حدثنا ابن فيروز الأنبارى عن محمد بن وهب الدمشقى قال: حدثنا الهيثم بن عمران قال: حدثنى جدى قال: استخلف يزيد بن الوليد ستة أشهر ثم مات بالخضراء بدمشق ودفن بباب الصغير، وكان عمره اثنتين وثلاثين سنة، وكان ولد فى الكعبة ولم يولد فيها خليفة غير أمير المؤمنين على بن أبى طالب عليه السلام
[تاریخ موصل 58]

راویوں کا احوال:
سند میں کوئی رافضی نہیں بلکہ سب کا تعلق اہل سنت سے ہے :
(۱)عيسى بن فيروز ابو موسى الانباري کا شمار حنبلی علماء میں ہوتا ہے ابو یعلی نے ﻃﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﺤﻨﺎﺑﻠﺔ ج1 ص 248 میں اس کا ذکر احمد بن حنبل کے شاگردوں میں کیا ہے:
[٣٤٨ – عيسى بن فيروز الأنبارى، أبو موسى.]
سمع من إمامنا أشياء
[الكتاب: طبقات الحنابلة
المؤلف: أبو الحسين، محمد بن أبي يعلى
وقف على طبعه وصححه: محمد حامد الفقي [ت ١٣٧٨ هـ]
الناشر: مطبعة السنة المحمدية – القاهرة
عام النشر: ١٣٧١ هـ – ١٩٥٢ م،ج 1 ص 248]
https://shamela.ws/book/9543/250
(۲)دوسرا راوی محمد بن وہب بخاری کا راوی ہے دارقطنی و ذہبی وغیرہ نے اس کی توثیق کی ہے:
٢٤٦ – مُحَمَّدُ بنُ وَهْبِ بنِ عَطِيَّةَ السُّلَمِيُّ * (خَ، ق)
الإِمَامُ، المُفْتِي، أَبُو عَبْدِ اللهِ السُّلَمِيُّ، الدِّمَشْقِيُّ.
حَدَّثَ عَنْهُ: بَقِيَّةُ بنُ الوَلِيْدِ، وَمُحَمَّدُ بنُ حَرْبٍ، وَالوَلِيْدُ، وَعِرَاكُ بنُ خَالِدٍ.
وَعَنْهُ: الذُّهْلِيُّ، وَأَبُو حَاتِمٍ، وَالرَّمَادِيُّ، وَعُبَيْدُ بنُ شَرِيْكٍ، وَعَلِيُّ بنُ مُحَمَّدٍ الجَكَّانِيُّ.
وَثَّقَهُ: الدَّارَقُطْنِيُّ (٢) .
الكتاب: سير أعلام النبلاء
المؤلف: شمس الدين، محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (ت ٧٤٨ هـ)
تحقيق: حسين أسد (جـ ١، ٦)، شعيب الأرنؤوط (جـ ٢، ٥، ١٩، ٢٠)، محمد نعيم العرقسوسي (جـ ٣، ٨، ١٠، ١٧، ١٨، ٢٠)، مأمون الصاغرجي (جـ ٤)، علي أبو زيد (جـ ٧، ١٣)، كامل الخراط (جـ ٩)، صالح السمر (جـ ١١، ١٢)، أكرم البوشي (جـ ١٤، ١٦)، إبراهيم الزيبق (جـ ١٥)، بشار معروف (جـ ٢١، ٢٢، ٢٣)، محيي هلال السرحان (جـ ٢١، ٢٢، ٢٣)
بإشراف: شعيب الأرناؤوط [ت ١٤٣٨ هـ]
الناشر: مؤسسة الرسالة
الطبعة: الثالثة، ١٤٠٥ هـ – ١٩٨٥ م ،ج 10 ص 569]
https://shamela.ws/book/10906/6918
(۳)تیسرا راوی هيثم بن عمران بن عبد الله بن جرول:
ابن ابی حاتم نے اس کا ذکر بغیر جرح و تعدیل کے کیا ہے
[الكتاب: الجرح والتعديل
المؤلف: أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم محمد بن إدريس بن المنذر التميمي الحنظلي الرازي (ت ٣٢٧ هـ)
الناشر: مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن – الهند
الطبعة: الأولى، ١٢٧١ هـ – ١٩٥٢ م ،ج 9 ص 82]
https://shamela.ws/book/2170/3843#p1
ابن حبان نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے(الثقات ج 7 ص 577)
(۴)چوتھا راوی عبداللہ بن جرول العنسی دمشقی تابعی ہے ابن حبان نے اس کا شمار ثقات میں کیا ہے
[الكتاب: الثقات
المؤلف: محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (ت ٣٥٤ هـ)
طبع بإعانة: وزارة المعارف للحكومة العالية الهندية
تحت مراقبة: الدكتور محمد عبد المعيد خان مدير دائرة المعارف العثمانية
الناشر: دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند
الطبعة: الأولى، ١٣٩٣ ه = ١٩٧٣ ،ج 5 ص 63]
https://shamela.ws/book/5816/1580
خطیب نے اسے شام کے افضل ترین لوگوں میں شمار کیا ہے:
[٧٢٤- (٣) وعبد الله بن أبي عبد الله العنسي]
من أفاضل أهل دمشق
[الكتاب: المتفق والمفترق
المؤلف: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب البغدادي (ت ٤٦٣هـ)
دراسة وتحقيق: الدكتور محمد صادق آيدن الحامدي
الناشر: دار القادري للطباعة والنشر والتوزيع، دمشق
الطبعة: الأولى، ١٤١٧ هـ – ١٩٩٧ م،ج 3 ص 1427]
https://shamela.ws/book/9076/1118
ابن عساكر نے اس امر کی تصریح کی ہے کہ اس نے ضحاک بن قیس صحابی سے سنا تھا،
ﺳﻤﻊ ﺍﻟﻀﺤﺎﻙ ﺑﻦ ﻗﻴﺲ ﺍﻟﻔﻬﺮﻱ ﻋﻠﻰ ﻣﻨﺒﺮ ﺩﻣﺸﻖ
[تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الاماثل أو اجتاز بنواحيها من وارديها وأهلها
تصنيف الامام العالم الحافظ أبي القاسم علي بن الحسن ابن هبة الله بن عبد الله الشافعي المعروف بابن عساكر
(٤٩٩ – هـ – ٥٧١ هـ)
دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع
الطبعة الاولى:
١٤١٩ – هـ – ١٩٩٨ م
دار الفكر،بيروت،لبنان
ج 27 ص 244]
https://shamela.ws/book/71/12310
ضحاک بن قیس 64 ہجری میں ہلاک ہوا، اس وقت عبداللہ بن جرول کی عمر اتنی تھی کہ وہ ضحاک کے کلام کو یاد کر سکے و سمجھ سکے قابل غور امر یہ ہے کہ عبداللہ شامی ہے اور اس وقت شام ناصبیوں کا گڑھ تھا گویا ناصبیوں کے گڑھ میں بھی یہ بات عام تھی کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ولادت کعبہ میں ہوئی۔
تابعی کی مراسیل مقبول ہے:
یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ عبداللہ بن جرول تابعی ہے اور اس نے ولادت امیرالمومنین علیہ السلام کے وقت کو درک نہیں کیا جسکا جواب یہ ہے کہ تابعی کی مرسل جمہور اہل سنت کے نزدیک حجت ہے ملا علی قاری لکھتا ہے :
(مُرْسَلُ التَّابِعِيِّ حُجَّةٌ عِنْدَ الْجُمْهُورِ)
[الكتاب: مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
المؤلف: علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (ت ١٠١٤هـ)
الناشر: دار الفكر، بيروت – لبنان
الطبعة: الأولى، ١٤٢٢هـ – ٢٠٠٢م ، ﺝ 8 ، ﺹ 3284]
https://shamela.ws/book/8176/7221
ایک روایت متعدد طرق سے وارد ہو اگر سندا ضعیف بھی ہو تو طرق ضعف کا جبران کر دیتی ہیں:
یہ چار روایات ہیں اگر یہ سند ضعیف بھی ہوتیں پھر بھی قابل احتجاج تھیں، ائمہ اہل سنت نے روایات کے رد و قبول کے کچھ اصول بنائے ہیں، ایک قائدہ یہ بھی ہے کہ اگر ایک روایت متعدد طرق سے وارد ہو اگر سندا ضعیف بھی ہو تو طرق ضعف کا جبران کر دیتی ہیں اور روایت قابل احتجاج ہو جاتی ہے چنانچہ بدر الدین عینی نووی سے نقل کرتا ہے۔
وَقَالَ النَّوَوِيّ فِي (شرح الْمُهَذّب) :إِن الحَدِيث إِذا رُوِيَ من طرق ومفرداتها ضِعَاف يحْتَج بِهِ، على أَنا نقُول: قد شهد لمذهبنا عدَّة أَحَادِيث من الصَّحَابَة بطرق مُخْتَلفَة كَثِيرَة يُقَوي بَعْضهَا بَعْضًا، وَإِن كَانَ كل وَاحِد ضَعِيفا،
اور نووی نے شرح مہذب میں کہا ہے کہ اگر کوئی حدیث مختلف ضعیف طرق سے روایت ہو تو بھی قابل احتجاج ہوتی ہے، ہم کہتے ہیں ہمارے اس دعوے کی دلیل پر وہ روایات ہیں جو صحابہ سے بہت سے ضعیف طرق سے نقل ہوئ ہیں جو بعض کو بعض تقویت دیتی ہیں
[الكتاب: عمدة القاري شرح صحيح البخاري
المؤلف: بدر الدين أبو محمد محمود بن أحمد العينى (ت ٨٥٥ هـ)
عنيت بنشره وتصحيحه والتعليق عليه: شركة من العلماء بمساعدة إدارة الطباعة المنيرية، لصاحبها ومديرها محمد منير عبده أغا الدمشقي
وصوَّرتها دور أخرى: مثل (دار إحياء التراث العربي، ودار الفكر) – بيروت ، ج3 ص 307]
https://shamela.ws/book/5756/933
وہابیوں کا سب سے بڑا پنڈٹ ابن تیمیہ ناصبی منافق بھی اس اصول کا قائل تھا لکھتا ہے :
تعدّد الطرق وکثرتها یقوی بعضها بعضا حتی قد یحصل العلم بها ولو کان الناقلون فجّارا فسّاقا
(روایت کے) مختلف طرق ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں یہاں تک کہ اس سے علم حاصل ہوتا ہے (یعنی خبر کی تصدیق ہوتی ہے )چاہے بیان کرنے والے بڑے فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہوں
[الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: شيخ الإسلام أحمد بن تيمية
جمع وترتيب: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم رحمه الله
وساعده: ابنه محمد وفقه الله
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف – المدينة المنورة – السعودية
عام النشر: ١٤٢٥ هـ – ٢٠٠٤ م ، ج 18 ص26]
https://shamela.ws/book/7289/9162
فضائل میں ضعیف احادیث بھی قابل قبول ہوتی ہیں:
اس اصول پر بھی روایات قابل قبول ہیں ،اہل سنت کے یہاں مسلم اصول ہے کہ فضائل میں ضعیف احادیث بھی قابل قبول ہوتی ہیں۔
نووی لکھتا ہے:
وَيَجُوزُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَغَيْرِهِمُ التَّسَاهُلُ فِي الْأَسَانِيدِ وَرِوَايَةُ مَا سِوَى الْمَوْضُوعِ مِنَ الضَّعِيفِ، وَالْعَمَلُ بِهِ مِنْ غَيْرِ بَيَانِ ضَعْفِهِ فِي غَيْرِ صِفَاتِ اللَّهِ تَعَالَى وَالْأَحْكَامِ كَالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ
اہل حدیث کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل (نرمی) برتنا اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا ان کا ضعف بیان کیے بغیر جائز ہے؛ مگر اللہ کی صفات اور حلال و حرام جیسے احکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
[الكتاب: تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي
المؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (ت ٩١١هـ)
حققه: أبو قتيبة نظر محمد الفاريابي
الناشر: دار طيبة ،ج 1 ص 350]
https://shamela.ws/book/9329/328
ابن حجر مکی لکھتا ہے:
قد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث فی فضائل الاعمال ،لانه ان کان صحیحاً فی نفس الامر، فقد اعطی حقه، والا لم یترتب علی العمل به مفسدة تحلیل ولاتحریم.
فضائل اعمال میں( ضعیف) حدیث پر عمل کے متعلق علماء کا اتفاق ہے اگر وہ واقعا صحیح تھی تو اس کا حق اس کو مل گیا، ورنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حرام حلال ہوا نہ حلال حرام۔
[الاجوبة الفاضلة ص43]
ابن حجر عسقلانی لکھتا ہے :
وَقد ثَبت عَن الإِمَام أَحْمد وَغَيره من الْأَئِمَّة أَنهم قَالُوا إِذا روينَا فِي الْحَلَال وَالْحرَام شددنا وَإِذا روينَا فِي الْفَضَائِل وَنَحْوهَا تساهلنا
بے شک یہ بات احمد بن حنبل وغیرہ ائمہ سے ثابت ہے کہ وہ کہتے تھے کہ جب ہم حلال و حرام کے متعلق روایت کرتے ہیں تو اس میں سختی برتے ہیں اور جب فضائل کے متعلق روایت کرتے ہیں تو چشم پوشی سے کام لیتے ہیں ۔
[الكتاب: القول المسدد في الذب عن المسند للإمام أحمد
المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢هـ)
الناشر: مكتبة ابن تيمية – القاهرة
الطبعة: الأولى، ١٤٠١ ،ص11]
https://shamela.ws/book/6035/9
سخاوی نے عبدالرحمن بن مہدی کا قول نقل کیا ہے :
إِذَا رُوِّينَا عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ وَالْأَحْكَامِ، شَدَّدْنَا فِي الْأَسَانِيدِ وَانْتَقَدْنَا فِي الرِّجَالِ، وَإِذَا رُوِّينَا فِي الْفَضَائِلِ وَالثَّوَابِ وَالْعِقَابِ، سَهَّلْنَا فِي الْأَسَانِيدِ وَتَسَامَحْنَا فِي الرِّجَالِ
جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حلال و حرام کے متعلق روایت کرتے ہیں تو اسناد میں شدت سے کام لیتے ہیں اور راویوں کی خوب جانچ پڑتال کرتے ہیں ،اور جب فضائل اور ثواب و عقاب کے متعلق روایت کرتے ہیں تو اسناد میں آسانی اور راویوں سے چشم پوشی کرتے ہیں
[الكتاب: فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي
المؤلف: شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي (ت ٩٠٢هـ)
المحقق: علي حسين علي
الناشر: مكتبة السنة – مصر
الطبعة: الأولى، ١٤٢٤هـ / ٢٠٠٣م ،ج 1 ص 354]
https://shamela.ws/book/5963/336
اس اصول سے بھی یہ روایات قابل قبول ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان روایات میں حلال و حرام تو دور فضائل اعمال کا بھی ذکر نہیں فقط تاریخی واقعہ کا ذکر ہے تو پھر اہل سنت میں چھپے ناصبیوں کو ان سے اتنی تکلیف کیوں ہوئی کہ صفحات کے صفحات اس تاریخی واقعہ کو رد کرنے میں صرف کرنے پڑے؟ بغض امیرالمومنین علیہ السلام کے سوا ہمیں کوئی اور وجہ نظر نہیں آتی ۔
نواصب کو جب کوئی راہ فرار نہیں ملتی تو کہتے ہیں اس وقت کعبہ میں پیدا ہونا کوئی فضیلت نہیں کیونکہ وہ بت خانہ تھا۔
ان عقل کے اندھے ناصبیوں کی رسوائی کہ لئے یہی کافی ہے کہ بیت اللہ الحرام ہمیشہ سے ہی اللہ عزوجل کا حرمت والا گھر تھا اگر اس کی فتح مکہ سے پہلے کوئی حرمت نہ ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی بھی اس کے عمرہ کا قصد نہ کرتے نہ اللہ سبحانہ تعالی اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیتا۔
ایک ویڈیو میں میکی ماؤس(معروف مکی حجازی) کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ، کعبہ میں ولادت سے مراد مکہ میں ولادت ہے کیونکہ پورا شہر مکہ ہی حرم ہے اس احمقانہ اعتراض کا کیا جواب دیا جائے، اگر حقیقت وہی ہے جو اس نے کہا تو سوال یہ ہے کہ کیا اہل مکہ سب کے سب مکہ سے باہر پیدا ہوتے تھے؟
وہ تمام اشکال تھے جو ناصبیوں کی طرف سے ہوتے ہیں جن کے جوابات الحمدللہ مکمل ہوے.
خلاصہ یہ کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ولادت کعبہ میں ہونا ہمارے یہاں تواتر سے ثابت ہے۔
کتب اہل سنت بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔
مؤرخین ،محدثین، ائمہ و علماء اہل سنت کی بڑی تعداد نے آپ علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا بیت اللہ میں ہونا تسلیم کیا ہے۔
کنجی شافعی نے با سند صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ علیہ السلام کی ولادت کا واقعہ نقل کیا۔
دیگر محدثین نے دیگر صحابہ و تابعین سے بھی روایت کیا ہے۔
حاکم و ذہبی نے آپ علیہ السلام کی ولادت کعبہ میں ہونا تواتر سے تسلیم کیا ہے۔
جبکہ ابن حزام کے متعلق کوئی صحیح حدیث نہ صحابی سے نہ ہی تابعی سے اور ناہی تبع تابعی سے نقل ہوئی ہے بلکہ بہت بعد کے علما نے بغیر سند کے نقل کیا جوکہ غیر قابل احتجاج و مردود ہے ۔