اشعث بن قیس
"صحابی أشعث بن قیس، جو نبی محمد ﷺ کے بعد مرتد ہو گیا”:
185-الأشعث بن قيس ب د ع: الأشعث بْن قيس بْن معدي كرب بْن معاوية بْن جبلة بْن عدي بْن ربيعة بْن الحارث بْن معاوية بْن ثور الكندي….
… وفد إِلَى النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سنة عشر من الهجرة في وفد كندة، وكانوا ستين راكبًا فأسلموا….
… وكان الأشعث ممن ارتد بعد النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ…
ترجمہ :
185- الأشعث بن قیس
(ب د ع): الأشعث بن قیس بن معدی کرب بن معاویہ بن جبلة بن عدی بن ربیعہ بن الحارث بن معاویہ بن ثور الکندی…
… وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ہجرت کے دسویں سال قبیلہ کِندہ کے وفد کے ساتھ آیا، اور یہ وفد ساٹھ سواروں پر مشتمل تھا، سب نے اسلام قبول کیا۔
… اور الأشعث اُن لوگوں میں شامل تھا جو نبی ﷺ کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے۔
📚 أسد الغابة في معرفة الصحابة الجزء 3 صفحه 249 – 250 📚 الاصابة في تمييز الصحابة المجلد 1 صفحه 50 📚الأستيعاب في معرفة الاصحاب الجزء 1 صفحه 220
ا


🔘الأشعث نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا✔️
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو الأشعث نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ پس حضرت ابوبکر کے عامل نے اس سے جنگ کی، یہاں تک کہ الأشعث نے امان طلب کی۔ اسے حضرت ابوبکر کے حکم پر امان دی گئی اور ان کے پاس بھیجا گیا۔ الأشعث نے حضرت ابوبکر سے درخواست کی کہ وہ اسے اپنی جنگ میں باقی رکھیں اور اپنی بہن اُم فروہ سے اس کا نکاح کر دیں۔ حضرت ابوبکر نے یہ مطالبہ مان لیا۔
📚 المعارف، صفحہ 187-188
📚 ابوبکر، اول خلفائے راشدین از محمد رضا، صفحہ 67

أشعث کی آذربائیجان کے مال کی چوری اور معاویہ سے جا ملنے کی خواہش
جب أشعث اپنے گھر آیا تو اس نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور کہا: "علی (علیہ السلام) کا خط مجھے پریشان کر رہا ہے، اور میں آذربائیجان کا مال لیے ہوئے ہوں۔ میں معاویہ کے پاس جانے والا ہوں۔”
تو لوگوں نے کہا: "موت اس سے بہتر ہے کہ تو یہ کرے! کیا تو اپنی حکومت اور اپنی قوم کی جماعت کو چھوڑ کر اہل شام کا پیروکار بنے گا؟”
اس پر الأشعث شرمندہ ہوا، تو وہ (اپنا ارادہ بدل کر) علی (علیہ السلام) کے پاس گیا۔
سکونی کہتا ہے: "چونکہ الأشعث کو ڈر تھا کہ کہیں وہ معاویہ سے نہ جا ملے، اس لیے وہ علی کے پاس آیا۔”
ماخذ:
وقعة صفین، صفحہ 21
الامامة و السياسة، جلد 1-2، صفحہ 79


أشعث اور اس کی ابن ملجم کے ساتھ امام علی علیہ السلام کے قتل میں شراکت
1⃣ أشعث کی امام علی کو قتل کی دھمکی:
قَیس بن ابی حازم سے روایت ہے، وہ کہتا ہے:
اشعث امام علی علیہ السلام کے پاس کسی معاملے میں آیا اور انہیں قتل کی دھمکی دی۔
تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
"کیا تُو مجھے موت سے ڈراتا ہے! مجھے موت کی پرواہ نہیں! زنجیر اور بیڑی لے آؤ!”
پھر آپ نے اپنے اصحاب کی طرف اشارہ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے اشعث کے لیے سفارش کی، تو امام نے اُسے چھوڑ دیا۔
ماخذ:
سیر أعلام النبلاء، جلد 3، صفحہ 265
مقاتل الطالبيين، صفحہ 21
2⃣ ابن ملجم، اشعث کے گھر ایک ماہ تک مقیم رہا
ابن ملجم اشعث بن قیس کندی کے پاس ٹھہرا رہا، اور وہاں ایک مہینہ تک اپنا تلوار تیز کرتا رہا۔
ماخذ:
تاریخ یعقوبی، جلد 2، صفحہ 251
3⃣ اشعث، ابن ملجم کو امام علی کے قتل پر اُکساتا ہے
عبدالرحمن بن ملجم اُس رات جس میں وہ امام علی کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، اشعث بن قیس کے مسجد میں فجر تک سرگوشیاں کرتا رہا۔
اشعث نے اُس سے کہا:
"صبح ہو گئی، اٹھ!”
تو ابن ملجم اور شبیب بن بجرة اپنی تلواریں لے کر امام علی کے گھر کے دروازے کے سامنے جا بیٹھے۔
ماخذ:
طبقات الکبریٰ، جلد 3، صفحہ 26
جامع المسانید والسنن، جلد 17، صفحہ 5465
◐▧ اہل تشیع کی معتبر کتب سے گواہی ▧◐
ثقة الاسلام شیخ کلینی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"اشعث بن قیس، امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے خون میں شریک تھا،
اس کی بیٹی جعدہ نے امام حسن علیہ السلام کو زہر دیا،
اور اس کا بیٹا محمد، امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک تھا۔”
ماخذ:
الکافی، جلد 8، صفحہ 167





🔥عداوة الأشعث مع لقب”أمير المؤمنين”للإمام علي🔥
قال هشام بن محمد: ثم اجتمعوا عند علي و كتبوا الكتاب (بسم اللّه الرحمن الرحيم هذا ما قاضى عليه أمير المؤمنين علي فقال عمرو بن العاص اكتبوا اسمه و اسم أبيه هو أميركم أما أميرنا نحن فلا فقال الأحنف لا تمحوا اسم أمير المؤمنين فاني اتخوف ان محي لا يرجع اليه أبدا 👈فقال الأشعث أمحو هذا الاسم محاه اللّه فمحي……
📚 تذكرة الخواص صفحه 87
یقیناً! اس عربی عبارت کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے:
اشعث کی "امیر المؤمنین” کے لقب سے دشمنی🔥
ہشام بن محمد بیان کرتے ہیں:
پھر سب لوگ امام علی (علیہ السلام) کے پاس جمع ہوئے اور صلح نامہ لکھا جانے لگا۔
(عبارت یوں لکھی گئی):
"بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر امیر المؤمنین علی نے صلح کی۔”
تو عمرو بن العاص نے کہا:
"اس کا اور اس کے باپ کا نام لکھو، یہ تمہارا امیر ہے، ہمارا امیر تو نہیں!”
اس پر الأحنف نے کہا:
"امیر المؤمنین کا لقب مت مٹاؤ، میں ڈرتا ہوں کہ اگر یہ مٹ گیا تو پھر کبھی واپس نہ آئے۔”
لیکن اشعث نے کہا:
"اس لقب کو مٹا دو، اللہ اسے مٹا دے!”
تو وہ لقب واقعی مٹا دیا گیا…
ماخذ:
تذکرة الخواص، صفحہ 87

امير المؤمنين الإمام علي يلعن ويصف الأشعث بالمنافق في نهج البلاغة☘
١٩ ـ ومن كلام له عليه السّلام
قاله للأشعث بن قيس وهو على منبر الكوفة يخطب فمضى فى بعض كلامه شىء اعترضه الأشعث فقال يا أمير المؤمنين هذه عليك لا لك فخفض عليه السّلام إليه بصره ثم قال ما يدريك ما علىّ ممّا لى عليك لعنة اللّه ولعنة اللاّعنين حائك بن حائك منافق ابن كافر واللّه لقد أسرك الكفر مرّة والإسلام أخرى.ث فما فداك من واحدة منهما مالك ولا حسبك وإنّ امرءا دلّ…..
نهج البلاغة لمحمد عبده الجزء 1 صفحه 56
امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام اشعث پر لعنت بھیجتے ہیں اور اسے منافق قرار دیتے ہیں (نہج البلاغہ میں)☘
نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 19
(یہ کلام امیر المؤمنین علیہ السلام نے اشعث بن قیس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، جب آپ کوفہ کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے)۔
جب خطبہ کے دوران ایک بات آئی، تو الأشعث نے ٹوکتے ہوئے کہا:
"یا امیر المؤمنین! یہ بات آپ کے خلاف ہے، نہ کہ آپ کے حق میں۔”
تو امام علی علیہ السلام نے نظریں نیچی کیں اور اسے دیکھا، پھر فرمایا:
"تجھے کیا معلوم کہ میرے حق میں کیا ہے اور میرے خلاف کیا ہے؟”
"تجھ پر اللہ کی لعنت ہو، اور لعنت ہو تمام لعنت کرنے والوں کی!”
"تو ایک بُنکَر کا بیٹا ہے، منافق ہے، کافر کا بیٹا ہے!”
"خدا کی قسم! ایک بار تجھے کفر نے قیدی بنایا، اور دوسری بار اسلام نے۔”
"اور نہ تو تیرے مال نے، نہ تیرے حسب نے تجھے کسی بار سے چھڑایا!”
ماخذ:
نہج البلاغہ، محمد عبده، جلد 1، صفحہ 56
یہ کلام امیر المؤمنین علیہ السلام کی زبانی الأشعث کی منافقت، بے حسبی اور دین سے خیانت پر ایک کھلا اعلان ہے۔
