صحیح وقت افطار
- روزہ کی شرعی حدود
- بغوی نے غسق اللیل سے مراد نماز مغرب و عشاء لیا ہے
- ابن عطیہ نے بھی غسق اللیل سے نماز مغرب و عشاء مراد لیا ہے
- وقت افطار کے متعلق امام باقر علیہ السلام سے مروی صحیح حدیث
- سورج کے غروب کا علم مشرق سے سرخی ختم ہونے سے ہوتا ہے
- صحابہ نے دین میں بدعات انجام دے کر اس کا چہرہ مسخ کر دیا
- صرف نماز نہیں بلکہ تمام احکام الہی بھی اسی طرح ضائع کئےصحابہ نے
- خود صحابہ کو بھی اپنے بدعتی ہونے کا پورا پورا یقین تھا
- روزہ کے معاملے میں صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ میں ہی مخالفت شروع کر دی تھی
- حضرت عائشہ بھی اس جماعت میں سے تھیں جنہوں نے اس سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بھرپور مخالفت کی تھی یہ تو روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ نماز بھی پوری پڑھتی تھیں
- آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو صوم وصال سے منع فرما دیا تھا اس کے بعد بھی صحابہ باز نہیں آئے
- امن پوری نے بھی اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے خلاف قرآن فتوی دیا ہے
- امن پوری کی دلیل کا مدلل رد
- انبیاء کرام علیہم السلام کے جلد افطار کرنے کے متعلق جناب عبداللہ بن عباس علیہما الرحمہ سے منسوب روایت
- امن پوری کا ایک اور جھوٹ” لکھتا ہے کہ امت کا اجماع ہے
- تنہا سورج غروب ہونے کو افطار کا وقت نہیں بتایا گیا بلکہ دو شرطیں اور بھی ہیں
- روایت میں مذکورہ تین شرطیں
- رسول اللہ کی حالات سفر میں زوہ رکھنے والی احادیث باطل ہیں صحیح بخاری میں
- امن پوری نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ایک روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نماز مغرب سے پہلے افطار کرتے تھے
- کتب اہل سنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نماز مغرب پڑھانے کا کیا وقت درج ہے؟
- رمضان اور غیر رمضان مبارک میں نبیؐ جلدی نماز پڑھاتے تھے،فرق کرنے والے کی توجیہ باطل ہے
- کتب اہل سنت میں قبل از وقت افطار کرنے والوں کا سخت عذاب میں مبتلا ہونے کا ذکر موجود ہے
روزہ کی شرعی حدود:
روزہ کی شرعی حدود کو اللہ سبحانہ تعالی نے اپنی محکم کتاب میں وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے ، ارشاد باری تعالٰی ہے:
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ (البقرۃ ۱۸۷)
اور کھاو پیو یہاں تک کہ (صبح )کی سفید دھاری،(رات کی)سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے ۔پھر روزہ رات تک پورا کرو۔
اس واضح آیت کے بعد اب کوئی عذر باقی نہیں رہتا کہ کس وقت افطار کرنا ہے۔
مفسرین اہل سنت نے وقت نماز مغرب پر سورہ اسراء کی آیت سے استدلال کیا ہے۔
أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ (الاسراء 78)
آفتاب کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز پڑھا کرو۔
بغوی نے غسق اللیل سے مراد نماز مغرب و عشاء لیا ہے:
فَدُلُوكُ الشَّمْسِ”: يَتَنَاوَلُ صَلَاةَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَ”إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ”: يَتَنَاوَلُ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَ”قُرْآنَ الْفَجْرِ”: هُوَ صَلَاةُ الصُّبْحِ
[معالم التنزيل،البغوي – الحسين بن مسعود البغوي،دار طيبة، ج 5 ص114]


ابن عطیہ نے بھی غسق اللیل سے نماز مغرب و عشاء مراد لیا ہے:
دُلُوكُ الشَّمْسِ زَوَالُهَا، وَالْإِشَارَةُ إِلَى الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَغَسَقُ اللَّيْلِ إِشَارَةٌ إِلَى الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ أُرِيدَ بِهِ صَلَاةُ الصُّبْحِ
[ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺑﺤﺮِ المحيط, أبو حيان الأندلسي – أثير الدين أبو عبد الله محمد بن يوسف الأندلسي,دار إحياء التراث العربي, ج 6 ص70]
https://islamweb.net/ar/library/index.php?page=bookcontents&ID=1260&bk_no=62&flag=1
[ج 6 ص 68 ،دار الكتب العلمية,بيروت-لبنان(اسکین)]


اس واضح قرآنی اصول کے بعد اب اختلاف کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔
وقت افطار کے متعلق امام باقر علیہ السلام سے مروی صحیح حدیث:
علامہ حلی رضوان اللہ علیہ نے وقت افطار کے متعلق امام باقر علیہ السلام سے مروی صحیح حدیث نقل کی ہے جو کہ ان قرآنی آیات کی بہترین تفسیر کرتی ہے اور جس میں مکمل غروب آفتاب اور رات کے آنے کی تشریح ہے:
"ما رواه بريد بن معاوية في الصحيح، عن الباقر – عليه السلام – قال : إذا غابت الحمرة من هذا الجانب – يعني من المشرق – فقد غابت الشمس من شرق الأرض ومن غربها”
[مختلف الشیعة،المؤلف: العلامة الحلي،الوفاة: 726 المجموعة: فقه الشيعة من القرن الثامن ،تحقيق: مؤسسة النشر الإسلامي الطبعة: الأولى سنة الطبع: ذي الحجة الحرام 1412 المطبعة: الناشر: مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، جلد 2 ص 40]
http://lib.eshia.ir/10148/2/40
"بریدہ بن معاویہ علیہ الرحمہ نے امام باقر علیہ السلام سے صحیح روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا جب یہاں یعنی مشرق کی طرف سے سرخی غائب ہو جائے تو اس وقت سورج مشرق و مغرب دونوں جگہ سے غائب ہو جاتا ہے”۔
قرآن کی ترجمان اسی روایت پر شیعیان حیدر کرار علیہ السلام عمل کرتے ہیں چنانچہ شہید اول رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں:
يعلم الغروب بذهاب الحمرة المشرقية في الأشهر ، قال في المعتبر : عليه عمل الأصحاب لما رواه بريد بن معاوية عن الباقر عليه السلام : ( إذا غابت الحمرة من هذا الجانب يعني : المشرق فقد غابت الشمس من شرق الأرض ومن غربها)
[ذكرى الشيعة في أحكام الشريعة، تأليف الشهيد الأول محمد بن جمال الدين مكي العاملي الجزيني 734 – 786 ه ق ،تحقيق مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث،جلد 2 ص 341]
سورج کے غروب کا علم مشرق سے سرخی ختم ہونے سے ہوتا ہے:
سورج کے غروب کا علم مشرق سے سرخی ختم ہونے سے ہوتا ہے شہرت اسی کی ہے اور معتبر میں کہا ہے کہ اور اسی پر ہمارے اصحاب (شیعیان حیدر کرار علیہ السلام )کا عمل بھی ہے جیسا کہ بریدہ بن معاویہ علیہ الرحمہ نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب سرخی اس جانب یعنی مشرق سے غائب ہو جائے تو پس سورج بھی مشرق و مغرب دونوں جگہ سے غائب ہو جاتا ہے۔
مگر کیا کیا جائے کہ صحابہ نے اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ کر فرمان نبوی کی مخالفت کی اور اللہ سبحانہ تعالی کے دین کے خلاف بدعات سے بھرا الگ ہی راستہ بنا لیا صحابہ نے دین میں جو بدعات انجام دیں ان کی اندھی تقلید آج بھی امت کا ایک بڑا حصہ کر رہا ہے۔
اس سے پہلے کہ مسئلہ وقت افطار پر امن پوری ناصبی کے استدلال کے رد کا آغاز کریں کچھ صحیح روایات سے ثابت کرتے چلیں کہ صحابہ نے دین میں بدعات انجام دیکر کس طرح اس کا چہرہ مسخ کر دیا ۔
صحابہ کے حق کے راستہ سے ہٹ جانے کی پیشن گوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلے ہی کر چکے تھے۔
صحابہ نے دین میں بدعات انجام دے کر اس کا چہرہ مسخ کر دیا:
بخاری نے اپنی صحیح میں جناب ابو سعید علیہ الرحمہ سے روایت کی کہ :
\3456 – حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ»، قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ: اليَهُودَ، وَالنَّصَارَى قَالَ: «فَمَنْ»
7320 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ الصَّنْعَانِيُّ، مِنَ اليَمَنِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ»، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اليَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ: «فَمَنْ»
بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :”تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی ساہنہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے ،ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ؐ کیا آپ کی مراد پہلی امتوں سے یہود و نصاریٰ ہیں ؟آپ ؐ نے فرمایا :پھو کون ہو سکتا ہے؟
[ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ – ﻛﺘﺎﺏ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﺍﻷﻧﺒﻴﺎﺀ – ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺫﻛﺮ ﻋﻦ ﺑﻨﻲ ﺇﺳﺮﺍﺋﻴﻞ ،حدیث نمبر 3269]

اور جیسا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا صحابہ نے آپؐ کے گزرنے کے بعد شریعت کو بدل دیا۔
– 786حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ غَيْلاَنَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، «فَكَانَ إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ كَبَّرَ وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ»، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ أَخَذَ بِيَدِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَّرَنِي هَذَا صَلاَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَوْ قَالَ: لَقَدْ صَلَّى بِنَا صَلاَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مطرف بن عبداللہ بن شخیر نے کہا کہ میں نے اور عمران بن حصین نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ،تو وہ جب بھی سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے ،اسی طرح سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے ،جب دو رکعات کے بعد اٹھتے تو تکبیر کہتے ،جب نماز ختم ہوئی تو عمران بن حصین نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا ئی ۔یا یہ کہا کہ اس شخص نے ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرح آج نماز پڑھائی۔


[ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ،ﺃَﺑْﻮﺍﺏُ ﺻِﻔَﺔِ ﺍﻟﺼَّﻠَﺎﺓِ ،ﺑَﺎﺏُ ﺇِﺗْﻤَﺎﻡِ ﺍﻟﺘَّﻜْﺒِﻴﺮ ﻓِﻲ ﺍﻟﺴُّﺠُﻮﺩِ، حدیث نمبر 786]
اندازه لگائیں کہ عمران بن حصین جیسا صحابی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے چند سالوں میں ہی آپ علیہ السلام کی نماز کو بھول گیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ابوبکر،عمر اور عثمان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرح نماز پڑھنا چھوڑ دیا تھا یہاں تک کہ صحابہ بھی نماز بنوی بھول گئے؟
ایسا فقط نماز کے ساتھ ہی نہیں بلکہ تمام احکام الہی بھی اسی طرح ضائع کئے گئے۔
صرف نماز نہیں بلکہ تمام احکام الہی بھی اسی طرح ضائع کئےصحابہ نے:
بخاری نے غیلان سے روایت کی ہے:
– حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ، عَنْ غَيْلاَنَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ” مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا كَانَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: الصَّلاَةُ؟ قَالَ: أَلَيْسَ ضَيَّعْتُمْ مَا ضَيَّعْتُمْ فِيهَا "
غیلان کا بیان ہے کہ انس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی بات اس زمانہ میں نہیں پاتا ،لوگوں نے کہا نماز تو ہے،فرمایا:اس کے اندر بھی تم نے کر رکھا ہے جو کر رکھا ہے۔
[صحیح بخاری ح 529]

بخاری نے اسی باب میں ایک اور روایت زہری سے نقل کی ہے:
530 – حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ وَاصِلٍ أَبُو عُبَيْدَةَ الحَدَّادُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، أَخِي عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: دَخَلْتُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِدِمَشْقَ وَهُوَ يَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكَ؟ فَقَالَ: «لاَ أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا أَدْرَكْتُ إِلَّا هَذِهِ الصَّلاَةَ وَهَذِهِ الصَّلاَةُ قَدْ ضُيِّعَتْ» وَقَالَ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ البُرْسَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ نَحْوَهُ
زہری کا بیان ہے کہ میں دمشق میں انس بن مالک کے پاس گیا ،وہ اس وقت رو رہا تھا ،میں نے کہا کہ تم کیوں رو رہے ہو؟ اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اسکو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔
[ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ،ﻛِﺘَﺎﺏ ﻣَﻮﺍﻗِﻴﺖ ﺍﻟﺼَّﻠَﺎﺓِ،ﺑَﺎﺏُ ﺗَﻀْﻴِﻴﻊِ ﺍﻟﺼَّﻼَﺓِ ﻋَﻦ ﻭَﻗْﺘِﻬَﺎ ،حدیث نمبر 530]

بخاری نے ایک روایت سالم سے بھی نقل کی ہے:
650 – حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ، تَقُولُ: دَخَلَ عَلَيَّ أَبُو الدَّرْدَاءِ وَهُوَ مُغْضَبٌ، فَقُلْتُ: مَا أَغْضَبَكَ؟ فَقَالَ: «وَاللَّهِ مَا أَعْرِفُ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا إِلَّا أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ جَمِيعًا»
میں نے ام الولد سے سنا ،اس نے کہا(ایک مرتبہ)ابودرداء آیا ،بڑا ہی خفا ہو رہا تھا ،میں نے پوچھا کہ کیا بات ہوئی جس نے تم کو غضبناک بنا دیا ،کہا کہ :اللہ کی قسم !محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی کوئی بات اب میں نہیں پاتا سواء اس کے کہ جماعت کے ساتھ یہ لوگ نماز پڑھ لیتے ہیں۔
[ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ،ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟْﺄَﺫَﺍﻥِ ،ﺑَﺎﺏُ ﻓَﻀْﻞِ ﺻَﻼَﺓِ ﺍﻟْﻔَﺠْﺮ ﻓِﻲ ﺟَﻤَﺎﻋَﺔٍ ،حدیث نمبر 650]

شارح بخاری ابن حجر نے اس روایت کی شرح میں تلخ حقیقت سے پردہ برداری کی ہے چنانچہ لکھتا ہے۔
وَكَأَنَّ ذَلِكَ صَدَرَ مِنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي أَوَاخِرِ عُمُرِهِ وَكَانَ ذَلِكَ فِي أَوَاخِرِ خِلَافَةِ عُثْمَانَ فَيَا لَيْتَ شِعْرِي إِذَا كَانَ ذَلِكَ الْعَصْرُ الْفَاضِلُ بِالصِّفَةِ الْمَذْكُورَةِ عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَكَيْفَ بِمَنْ جَاءَ بَعْدَهُمْ مِنَ الطَّبَقَاتِ إِلَى هَذَا الزَّمَانِ
[فتح الباري، فتح الباري شرح صحيح البخاري للامام الحافظ شهاب الدين ابن حجر العسقلاني رحمه الله تعالى الجزء الثاني دار المعرفة للطباعة والنشر بيروت – لبنان الطبعة الثانية ، ج ٢ – الصفحة ١١٦]
یہ واقعہ ابو درداء کی زندگی کے آخری ایام میں پیش آیا، اور وہ دور عثمان کی خلافت کا آخری دور تھا ،جب اس بہتر دور میں یہ پیش آیا تو اس کے بعد کے ادوار میں آج تک کیا نہیں ہوا ہوگا؟
خود صحابہ کو بھی اپنے بدعتی ہونے کا پورا پورا یقین تھا :
چنانچہ بخاری نے اپنی صحیح میں ہی بیعت شجرہ میں شریک صحابی براء کا قول نقل کیا ہے:
4170 – حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِشْكَابَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ العَلاَءِ بْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَقِيتُ البَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقُلْتُ: ” طُوبَى لَكَ، صَحِبْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَايَعْتَهُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِنَّكَ لاَ تَدْرِي مَا أَحْدَثْنَا بَعْدَهُ "
میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:مبارک ہو !آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت نصیب ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے شجر درخت کے نیچے بیعت کی ،انہوں نے کہا بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا کیا بدعتیں انجام دیں۔
[صحیح البخاری، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟْﻤَﻐَﺎﺯِﻱ ،ﺑَﺎﺏُ ﻏَﺰﻭَﺓِ ﺍﻟْﺤُﺪﻳْﺒِﻴَﺔِ حدیث نمبر 4170]

روزہ کے معاملے میں صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ میں ہی مخالفت شروع کر دی تھی:
مسلم نے اپنی صحیح میں جناب جابر بن عبداللہ علیہما الرحمہ سے روایت نقل کی ہے
90 – (1114) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَامَ الْفَتْحِ إِلَى مَكَّةَ فِي رَمَضَانَ فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ، فَصَامَ النَّاسُ، ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ فَرَفَعَهُ، حَتَّى نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، ثُمَّ شَرِبَ، فَقِيلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ: إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ قَدْ صَامَ، فَقَالَ: «أُولَئِكَ الْعُصَاةُ، أُولَئِكَ الْعُصَاةُ»
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فتح مکہ کے سال مکہ کی طرف رمضان میں نکلے اور روزہ رکھا یہاں تک کہ جب کراع غمیم تک پہنچے تو لوگوں نے روزہ رکھا ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اسے بلند کیا حتی کہ لوگوں نے دیکھ لیا پھر اسکے بعد آپ نے پی لیا ،اس کے بعد آپؐ سے کہا گیا کہ بعض لوگ روزہ رکھتے ہیں ،آپؐ نے فرمایا وہی نافرمان ہیں ،وہی نافرمان ہیں ۔

[صحیح مسلم، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟﺼِّﻴَﺎﻡِ ،ﺑﺎﺏ ﺟَﻮﺍﺯِ ﺍﻟﺼَّﻮﻡِ ﻭَﺍﻟْﻔِﻄﺮ ﻓِﻲ ﺷَﻬْﺮ ﺭَﻣَﻀَﺎﻥَ ﻟِﻠْﻤُﺴَﺎﻓِﺮ ﻏَﻴْﺮ ﻣَﻌْﺼِﻴَﺔٍ ﺇِﺫَﺍ ﻛَﺎﻥَ ﺳَﻔَﺮﻩُ ﻣَﺮﺣَﻠَﺘَﻴْﻦ ﻓَﺄَﻛْﺜَﺮ ﻭَﺃَﻥَّ ﺍﻷَﻓْﻀَﻞَ ﻟِﻤَﻦ ﺃَﻃﺎﻗَﻪُ ﺑِﻼَ ﺿَﺮﺭٍ ﺃَﻥْ ﻳَﺼُﻮﻡَ ﻭَﻟِﻤَﻦ ﻳَﺸُﻖ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﺃَﻥْ ﻳُﻔْﻄﺮ ،حدیث نمبر 2610]
حضرت عائشہ بھی اس جماعت میں سے تھیں جنہوں نے اس سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بھرپور مخالفت کی تھی یہ تو روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ نماز بھی پوری پڑھتی تھیں :
طحاوی نے روایت کو با سند صحیح نقل کیا ہے:
4259 – غَيْرَ أَنَّ ابْنَ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الْفِرْيَابِيِّ، فَقَالَ فِيهِ: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ زُهَيْرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: ” خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُمْرَةِ رَمَضَانَ، فَأَفْطَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصُمْتُ، وَقَصَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَتْمَمْتُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَفْطَرْتَ وَصُمْتُ، وَقَصَرْتَ وَأَتْمَمْتُ ” وَلَمْ يَذْكُرْ فِي حَدِيثِهِ غَيْرَ هَذَا، فَدَلَّ ذَلِكَ أَنَّ التَّقْصِيرَ كَانَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّ الْإِتْمَامَ كَانَ مِنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا.
[شرح مشكل الآثار، الطحاوي – أبو جعفر الطحاوي،مؤسسة الرسالة،سنة النشر: 1415 هـ – 1994 م ،رقم الطبعة: الطبعة الأولى، ج 11 ص 25]
https://www.islamweb.net/ar/library/content/1002/660/index.php
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو صوم وصال سے منع فرما دیا تھا اس کے بعد بھی صحابہ باز نہیں آئے:
بخاری نے ان کی مخالفت کا واقعہ بھی اپنی صحیح میں بیان کر دیا۔
1965 – حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ [ص:38] عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الوِصَالِ فِي الصَّوْمِ» فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنَ المُسْلِمِينَ: إِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «وَأَيُّكُمْ مِثْلِي، إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ»، فَلَمَّا أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا عَنِ الوِصَالِ، وَاصَلَ بِهِمْ يَوْمًا، ثُمَّ يَوْمًا، ثُمَّ رَأَوُا الْهِلَالَ، فَقَالَ: «لَوْ تَأَخَّرَ لَزِدْتُكُمْ» كَالتَّنْكِيلِ لَهُمْ حِينَ أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا
رسول خداؐ نے مسلسل(کئی دن تک سحری و افطاری کے بغیر)روزہ رکھنے سے منع فرمایا تھا۔اس پر ایک آدمی نے مسلمانوں میں سے عرض کی”یا رسول اللہ آپ تو وصال کرتے ہیں”،آپ نے فرمایا میری طرح تم میں سے کون ہے ؟مجھے تو رات میں میرا رب کھلاتا ہے ،اور وہی مجھے سیراب کرتا ہے ۔لوگ اس پر بھی جب صوم وصال رکھنے سے نہ رکے تو آپ نے ان کے ساتھ دو دن تک وسال کیا ،پھر عید کا چاند نکل آیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر چاند نہ دکھائی دیتا تو میں اور کئی دن وصال کرتا ،گویا کہ جب وصال سے وہ لوگ نہ رکے تو آپؐ نے ان کو سزا دینے کے لئے کہا۔
[ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ،ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟﺼَّﻮﻡِ ،ﺑَﺎﺏُ ﺍﻟﺘَّﻨْﻜِﻴﻞِ ﻟِﻤَﻦ ﺃَﻛْﺜَﺮ ﺍﻟْﻮﺻَﺎﻝَ حدیث نمبر 1965]


یہ صحابہ کی بدعات کے متعلق صحیح سند روایات سے چند شواہد ہیں جن میں اکثر صحیح بخاری سے ہیں ،جس کو غلام مصطفی ظہیر امن پوری معجزاتی کتاب گمان کرتا ہے جس کی روایات کا منکر اس گروہ کے نزدیک بدعتی شمار ہوتا ہے۔
امن پوری نے بھی اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے خلاف قرآن فتوی دیا ہے :
ایک نظر امن پوری کے خلاف قرآن فتوے پر بھی ڈالتے ہیں۔
ﺳﻮﺍﻝ : کھانا کھا رہا تھا ،اذان ہو گئی کیا کرے؟
ﺟﻮﺍﺏ : کھانا جاری رکھے، ضرورت کے مطابق کھا لے۔
روزے کے مسائل:
تحریر:غلام مصطفی ظہیر امن پوری۔

امن پوری کی دلیل کا مدلل رد:
اب امن پوری کی ایک ایک دلیل کا ان شاء اللہ مدلل رد کرتے ہیں۔
موصوف نے لکھا ہے کہ” روزہ جلدی افطار کرنا انبیا کی سنت اور اہل سنت کا شعار ہے ۔
احادیث متواترہ اور اجماع امت اس پر دلالت کناں ہیں ۔اسی میں امت کی خیر خواہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ امن پوری کا باطل گمان ہے کہ انبیاء علیہم السلام افطار میں جلدی کرتے تھے، نیز یہ کہ امت کا اس پر اجماع ہے، امت کسی ایک فرقہ کا نام نہیں جبکہ شیعیان حیدر کرار علیہ السلام اس امر کو باطل تسلیم کرتے ہیں تو پھر اجماع کا کیا وجود رہا؟
اس امر پر متواتر تو بہت دور صحیح حدیث بھی موجود نہیں۔
ہمارے علم میں کتب اہل سنت میں انبیاء کرام علیہم السلام کے جلد افطار کرنے کے متعلق تین صحابہ سے مروی روایات آئی ہیں:
(۱)ابن عباس علیہما الرحمہ (۲)ابن عمر (۳)ابو ہریرہ
مگر ایک بھی سند قابل احتجاج نہیں ۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے جلد افطار کرنے کے متعلق جناب عبداللہ بن عباس علیہما الرحمہ سے منسوب روایت:
إِنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُعَجِّلَ إِفْطَارَنَا
اس روایت کو عطاء بن ابی رباح کے ذریعے دو سندوں سے روایت کیا گیا ہے۔
بیہقی نے روایت کو نقل کر کے لکھا ہے:
8125 – أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ فُورَكٍ، أنبأ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثنا يُونُسُ بْنُ حَبِيبٍ، ثنا أَبُو دَاوُدَ، ثنا طَلْحَةُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُعَجِّلَ إِفْطَارَنَا، وَنُؤَخِّرَ سُحُورَنَا، وَنَضَعَ أَيْمَانَنَا عَلَى شَمَائِلِنَا فِي الصَّلَاةِ ” هَذَا حَدِيثٌ يُعْرَفُ بِطَلْحَةَ بْنِ عَمْرٍو الْمَكِّيِّ وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَاخْتُلِفَ عَلَيْهِ، فَقِيلَ عَنْهُ هَكَذَا , وَقِيلَ عَنْهُ عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرُوِيَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ ضَعِيفٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَمِنْ وَجْهٍ ضَعِيفٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ
یہ حدیث طلحہ بن عمرو مکی سے جانی جاتی ہے جوکہ ضعیف ہے اور اس سے اس روایت میں اختلاف ہے کہا گیا ہے اسی طرح اور کبھی اس سے عطاء عن ابی ہریرہ سے روایت کیا ہے، اور دوسرے ضعیف طریقے سے ابی ہریرہ سے اور ضعیف ہی طریقے سے ابن عمر سے بھی روایت کیا ہے۔
[ﺍﻟﻜﺘﺐ » ﺍﻟﺴﻨﻦ ﺍﻟﻜﺒﺮﻯ » ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻴﺎﻡ » ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻣﻦ ﺗﻌﺠﻴﻞ ﺍﻟﻔﻄﺮ ﻭﺗﺄﺧﻴﺮ ﺍﻟﺴﺤﻮﺭ, ج 4 ص 401 ,حدیث نمبر 7929]

دوسری سند ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کی ہے مگر وہ بھی ضعیف ہے:
1770 – أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّا مَعْشَرَ الْأَنْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُؤَخِّرَ سُحُورَنَا، وَنُعَجِّلَ [ص:68] فِطْرَنَا، وَأَنْ نُمْسِكَ بِأَيْمَانِنَا عَلَى شَمَائِلِنَا فِي صَلَاتِنَا».
اس سند میں حرملہ بن یحیی ہے۔ابن حاتم نے کہا اس سے احتجاج نہیں ہوگا ۔
ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺣﺎﺗﻢ : ﻻ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﻪ
ابن عدی نے کہا میں نے عبداللہ بن محمد الفرہاذانی سے حرملہ کے متعلق سوال کیا تو اس نے کہا حرملہ ضعیف ہے۔
ﻗﺎﻝ ابن عدي : ﺳﺄﻟﺖ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﻔﺮﻫﺎﺫﺍﻧﻲ ﺃﻥ يجدﺛﻨﻲ ﻋن ﺣﺮﻣﻠﺔ ، ﻓﻘﺎﻝ : ﺣﺮﻣﻠﺔ ﺿﻌﻴﻒ
[ﺳﻴﺮ ﺃﻋﻼﻡ ﺍﻟﻨﺒﻼﺀ ،تصنيف الامام شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي المتوفى 748 ه – 1374 م،المؤسسة الرسالة، الطبعة التاسعة 1413 ه – 1993 م،ﺍﻟﻄﺒﻘﺔ ﺍﻟﺜﺎﻧﻴﺔ ﻋﺸﺮﺓ ج 11 ص 389]
دوسرا راوی عمرو بن حارث ہے:
احمد بن حنبل نے اس کے بارے میں کہتے ہیں :
"وقال أَبُو بكر الأثرم سمعت أبا عبد اللَّه، يقول: ما فِي هؤلاء المصريين أثبت من الليث بْن سعد، لا عمرو بْن الحارث، ولا أحد، وقد كَانَ عمرو بْن الحارث عندي، ثُمَّ رأيت لَهُ أشياء مناكير وقال فِي موضع آخر عن أحمد عمرو بْن الحارث حمل عَلَيْهِ حملا شديدا ، قال: يروي عن قتادة أحاديث يضطرب فِيهَا ويخطىء”
ابوبکر اثرم نے کہا کہ میں نے احمد بن حنبل سے سنا کہ اس نے کہا: مصریوں میں کوئی بھی لیث کے جیسا ثابت نہیں ،نہ عمرو بن حارث اور نہ کوئی اور، اور عمرو بن حارث میرے پاس تھا میں نے اس کی مناکیر (احادیث )دیکھیں، اور دوسرے مقام پر کہا کہ احمد، عمرو بن حارث پر شدید حملہ آور ہوتا تھا کہا کہ قتادہ سے مضطرب روایات نقل کرتا اور ان میں خطا کرتا تھا۔
[الكتاب: تهذيب الكمال في أسماء الرجال
،المؤلف: جمال الدين أبو الحجاج يوسف المزي (٦٥٤ – ٧٤٢ هـ)
٧٤٢هـ) ،حققه وضبط نصه ،وعلق عليه: د بشار عواد معروف
،الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت
،الطبعة: الأولى، (١٤٠٠ – ١٤١٣ هـ) (١٩٨٠ – ١٩٩٢ م) ، ج 21 ص 573]
https://shamela.ws/book/3722/11221
امن پوری کا ایک اور جھوٹ” لکھتا ہے کہ امت کا اجماع ہے”:
کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جوں ہی سورج غروب ہو روزہ افطار کر دیا جائے احادیث صحیحہ اس کی تائید کرتی ہیں”
ہم کہتے ہیں یہ بھی امن پوری کا جھوٹا دعوی ہے اجماع امت کے دعوے کی رد پیش کی جا چکی ہے۔
تنہا سورج غروب ہونے کو افطار کا وقت نہیں بتایا گیا بلکہ دو شرطیں اور بھی ہیں:
بلکہ خود وہ روایات جن کو موصوف نے حجت کے طور پر پیش کیا ان ہی سے موصوف کے باطل عقیدہ کا رد ہوتا ہے،خود اہل سنت کے نزدیک معتبر کتب احادیث میں کہیں بھی تنہا سورج غروب ہونے کو افطار کا وقت نہیں بتایا گیا ،اگر امن پوری ناصبی میں کچھ عقل ہوتی تو خود اپنی ہی نقل کردہ روایات پر ہی غور کر لیا ہوتا ان میں فقط غروب آفتاب ہی شرط نہیں بلکہ دو شرطیں اور بھی ہیں، چنانچہ بخاری کی روایت کے الفاظ بلکل واضح ہیں:
1954 – حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ»
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب رات اس طرف(مشرق)سے آئے اور دن ادھر(مغرب)میں چلا جائے اور سورج ڈوب جائے تو روزہ کے افطار کا وقت ہو گیا۔
[صحیح البخاری، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟﺼَّﻮْﻡِ، ﺑَﺎﺏُ ﻣَﺘَﻰ ﻳَﺤِﻞُّ ﻓِﻄْﺮُ ﺍﻟﺼَّﺎﺋِﻢِ حدیث نمبر 1954]


ترمذی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے:
698 – حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الهَمْدَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، ح، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُثَنَّى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دَاوُدَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ، وَغَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرْتَ» وَفِي البَابِ عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَأَبِي سَعِيدٍ.: «حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ»
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جب رات آجائے اور دن چلا جائے اور سورج ڈوب جائے تو تم نے افطار کر لیا کرو۔
[الكتاب: سنن الترمذي ،المؤلف: محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (ت ٢٧٩هـ) ،تحقيق،وتعليق:أحمد محمد شاكر (جـ ١، ٢)ومحمد فؤاد عبد الباقي (جـ ٣) وإبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف (جـ ٤، ٥)، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر،الطبعة: الثانية، ١٣٩٥ هـ – ١٩٧٥ م ،ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻴﺎﻡ ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ،ﺑﺎﺏ ﻣَﺎ ﺟَﺎﺀَ ﺇِﺫَﺍ ﺃَﻗْﺒَﻞَ ﺍﻟﻠَّﻴْﻞُ ﻭَﺃَﺩْﺑَﺮَ ﺍﻟﻨَّﻬَﺎﺭُ ﻓَﻘَﺪْ ﺃَﻓْﻄَﺮَ ﺍﻟﺼَّﺎﺋِﻢُ حدیث نمبر 698]۔


روایت میں مذکورہ تین شرطیں:
(۱)رات مشرق کی طرف سے آجائے
(۲)دن مغرب کی طرف چلا جائے
(۳)سورج غروب ہوجائے
جبکہ امن پوری نے حدیث کی مخالفت کرتے ہوئے فقط غروب آفتاب کوہی کافی سمجھا اور اس کو امت کے سر منڈھ دیا۔
اہل سنت جس وقت افطا ر کرتے ہیں اس وقت مشرق کی طرف سرخی ہوتی ہے، جبکہ روایت میں ہے کہ ادھر سے رات (یعنی اندھیرا )آجائے، اور اتنی روشنی ہوتی ہے کہ اس پر رات کا اطلاق نہیں ہوتا۔
رسول اللہ کی حالات سفر میں زوہ رکھنے والی احادیث باطل ہیں صحیح بخاری میں:
اس روایت سے بخاری کی دوسری روایت کا بطلان ثابت ہوتا ہے، جس میں آپ کے حالات سفر میں زوہ رکھنے کا ذکر ہے:
1941 – حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ، سَمِعَ ابْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَقَالَ لِرَجُلٍ: «انْزِلْ فَاجْدَحْ لِي»، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الشَّمْسُ؟ قَالَ: «انْزِلْ فَاجْدَحْ لِي»، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الشَّمْسُ؟ قَالَ: «انْزِلْ فَاجْدَحْ لِي»، فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُ فَشَرِبَ، ثُمَّ رَمَى بِيَدِهِ هَا هُنَا، ثُمَّ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ»، تَابَعَهُ جَرِيرٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ
ہم رسول خداؐ کے ساتھ سفر میں تھے (روزہ کی حالت میں)نبی کریمؐ نے ایک آدمی سے فرمایا کہ اتر کر میرے لئے ستو گھول لے ،اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ابھی تو سورج باقی ہے ،لیکن آپؐ کا حکم بھی یہی تھا کہ اتر کر میرے لئے ستو گھول لے ،اب کی مرتبہ بھی اس نے کہا یا رسول اللہ !ابھی سورج باقی ہے ،لیکن آپ کا حکم اب بھی یہی تھا کہ اتر کر میرے لئے ستو گھول لے ،اب کی مرتبہ بھی اس نے یہی کہا یا رسول اللہ!ابھی سورج باقی ہے !لیکن آپ کا حکم اب بھی یہی تھا کہ اتر کر میرے لئے ستو گھول لے ،پھر آپؐ نے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا”جب تم دیکھو کہ رات یہاں سے شروع ہو چکی ہے تو روزہ دار کو افطار کر لینا چاہئے”۔
[صحیح البخاری، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟﺼَّﻮْﻡِ ،ﺑَﺎﺏُ ﺍﻟﺼَّﻮْﻡِ ﻓِﻲ ﺍﻟﺴَّﻔَﺮِ ﻭَﺍﻹِﻓْﻄَﺎﺭِ حدیث نمبر 1941]


اولاد تو یہ روایت قرآن کے خلاف ہے قرآن کریم میں اللہ سبحانہ تعالی نے واضح طور سے حالت سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے:
ﻓَﻤَﻦْ ﺷَﻬِﺪَ ﻣِﻨْﻜُﻢُ ﺍﻟﺸَّﻬْﺮَ ﻓَﻠْﻴَﺼُﻤْﻪُ ۖ ﻭَﻣَﻦْ ﻛَﺎﻥَ ﻣَﺮِﻳْﻀًﺎ ﺍَﻭْ ﻋَﻠٰﻰ ﺳَﻔَﺮٍ ﻓَﻌِﺪَّﺓٌ ﻣِّﻦْ ﺍَﻳَّﺎﻡٍ ﺍُﺧَﺮَ ۗ ﻳُﺮِﻳْﺪُ ﺍﻟﻠّـٰﻪُ ﺑِﻜُﻢُ ﺍﻟْﻴُﺴْﺮَ ﻭَﻟَﺎ ﻳُﺮِﻳْﺪُ ﺑِﻜُﻢُ ﺍﻟْﻌُﺴْﺮَۖ ﻭَﻟِﺘُﻜْﻤِﻠُﻮﺍ ﺍﻟْﻌِﺪَّﺓَ ﻭَﻟِﺘُﻜَـﺒِّـﺮُﻭﺍ ﺍﻟﻠّـٰﻪَ ﻋَﻠٰﻰ ﻣَﺎ ﻫَﺪَﺍﻛُﻢْ ﻭَﻟَﻌَﻠَّﻜُﻢْ ﺗَﺸْﻜُـﺮُﻭْﻥَ (البقرة 185)
اور جو کوئی بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرے ،اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر تنگی نہیں چاہتا،اور تاکہ تم گنتی پوری کر لو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔
اور صحیح مسلم کی روایت میں بھی صاف موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفر میں روزہ نہیں رکھا اور رکھنے والوں کو گنہگار خطاب کیا، بھلا کیا اس بات کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نعوذبااللہ منزل من اللہ قرآن کریم کی مخالفت کرتے تھے؟
امن پوری نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ایک روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نماز مغرب سے پہلے افطار کرتے تھے:
ﻋَﻦْ ﺃَﻧَﺲٍ ، ﻗَﺎﻝَ : ” ﻣَﺎ ﺭَﺃَﻳْﺖُ ﺭَﺳُﻮﻝَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻗَﻂُّ ﺻَﻠَّﻰ ﺻَﻼﺓَ ﺍﻟْﻤَﻐْﺮِﺏِ ﺣَﺘَّﻰ ﻳُﻔْﻄِﺮَ ، ﻭَﻟَﻮْ ﻋَﻠَﻰ ﺷَﺮْﺑَﺔٍ ﻣِﻦْ ﻣَﺎﺀٍ
انس نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ(و آلہ) و سلم کو کبھی بھی نہیں دیکھا کہ آپ علیہ السلام نے افطار کئیے بغیر نماز مغرب پڑھائی ہو چاہے کچھ پانی ہی پی لیتے۔
[ﺻﺤﻴﺢ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ، ﻛِﺘَﺎﺏُ ﺍﻟﺼَّﻮْﻡِ » ﺑَﺎﺏُ ﺍﻹِﻓْﻄَﺎﺭِ ﻭَﺗَﻌْﺠِﻴﻠِﻪِ ، ﺫِﻛْﺮُ ﺍﻻﺳْﺘِﺤْﺒَﺎﺏِ ﻟِﻠﺼُّﻮَّﺍﻡِ ﺗَﻌْﺠِﻴﻞُ ﺍﻹِﻓْﻄَﺎﺭِ .حدیث نمبر 3586]


کتب اہل سنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نماز مغرب پڑھانے کا کیا وقت درج ہے؟ :
بخاری نے اپنی صحیح میں رافع بن خدیج سے روایت کی ہے:
559 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِيِّ صُهَيْبٌ مَوْلَى رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، يَقُولُ: «كُنَّا نُصَلِّي المَغْرِبَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْصَرِفُ أَحَدُنَا وَإِنَّهُ لَيُبْصِرُ مَوَاقِعَ نَبْلِهِ»
ہم مغرب کی نماز نبی کریم ؐ کے ساتھ پڑھ کر جب واپس ہوتے اور تیر اندازی کرتے (تو اتنا اجالا باقی رہتا کہ)ایک شخص اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ لیتا تھا ۔
[صحیح البخاری، ﻛِﺘَﺎﺏ ﻣَﻮَﺍﻗِﻴﺖِ ﺍﻟﺼَّﻠَﺎﺓِ ،ﺑَﺎﺏُ ﻭَﻗْﺖِ ﺍﻟْﻤَﻐْﺮِﺏِ حدیث نمبر 559]


اس روایت کی مزید وضاحت نسائی کی ابن بشر والی روایت سے ہوتی ہے:
520 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ حَسَّانَ بْنَ بِلَالٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُمْ «كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ يَرْجِعُونَ إِلَى أَهَالِيهِمْ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَرْمُونَ وَيُبْصِرُونَ مَوَاقِعَ سِهَامِهِمْ»
قبیلہ اسلم کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ وہ لوگ یعنی صحابہ بنی اکرمؐ کے ساتھ مغرب پڑھتے ،پھر اپنے گھروں کو مدینہ کے آخری کونے تک لوٹتے ،اور تیر مارتے تو تیر گرنے کی جگہ دیکھ لیتے۔
[ﺳﻨﻦ ﻧﺴﺎﺋﻲ ،ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﻤﻮﺍﻗﻴﺖ ،ﺑَﺎﺏُ : ﺗَﻌْﺠِﻴﻞِ ﺍﻟْﻤَﻐْﺮِﺏِ،حدیث نمبر 521]

ان روایات سے اندازہ لگائیں کہ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز مغرب پڑھ کر مدینہ منورہ کے آخری کونے میں جاکر جب تیر چلاتے تو اتنا اجالہ ہوتا کہ وہ اپنے تیر گرنے کے مقام کو دیکھ لیتے ،اولاً وقت مغرب سے گھر لوٹ کر تیر چلانے کی مدت میں کم از کم آدھے گھنٹے کا فاصلہ ہونا ضروری ہے، کیا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بہتان تراشی نہیں کہ آپ روشن دن میں ہی افطار کرلیتے تھے کیا واقعا صاحب عقل اسے تسلیم کر سکتا ہے، کہاں روزے کو رات تک پورا کرنے کا حکم اور کہاں دن کے اجالے میں افطار کرنا۔
رمضان اور غیر رمضان مبارک میں نبیؐ جلدی نماز پڑھاتے تھے،فرق کرنے والے کی توجیہ باطل ہے:
کوئی کم عقل آکر احتمال دیتا ہوا یہ نہ کہے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ مبارک رمضان میں دیر سے نماز مغرب پڑھاتے ہوں یہاں تک کہ دن چھپ جائے اور رات آجائے، محدثین اہلسنت نے اس توجیہ کا بھی سد باب کر دیا۔
چناچہ مسلم نے اپنی صحیح میں ابی عطیہ سے روایت کی ہے:
49 – (1099) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَا: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ، عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَدُهُمَا «يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ»، وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ، قَالَتْ: أَيُّهُمَا الَّذِي يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ؟ ” قَالَ: قُلْنَا عَبْدُ اللهِ يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَتْ: «كَذَلِكَ كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» زَادَ أَبُو كُرَيْبٍ: وَالْآخَرُ أَبُو مُوسَى
ابو عطیہ سے روایت ہے کہ :میں اور مسروق عائشہ پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ام المومنین!دو شخص اصحاب سے رسولؐ کے ایک تو اول وقت افطار کرتے ہیں اور اول وقت ہی نماز پڑھتے ہیں ،دوسرے افطار اور نماز میں دیر کرتے ہیں تو (عائشہ نے)پوچھا :وہ کون ہیں جو اول وقت افطار کرتے ہیں اور اول ہی وقت نماز پڑھتے ہیں تو ہم نے کہا :عبداللہ ہے،عائشہ نے کہا رسول اللہ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔
[صحیح مسلم، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟﺼِّﻴَﺎﻡِ ،ﺑﺎﺏ ﻓَﻀْﻞِ ﺍﻟﺴُّﺤُﻮﺭِ ﻭَﺗَﺄْﻛِﻴﺪِ ﺍﺳْﺘِﺤْﺒَﺎﺑِﻪِ ﻭَﺍﺳْﺘِﺤْﺒَﺎﺏِ ﺗَﺄْﺧِﻴﺮِﻩِ ﻭَﺗَﻌْﺠِﻴﻞِ ﺍﻟْﻔِﻄْﺮِ ، حدیث نمبر 2556]

بقول عائشہ معلوم ہوا کہ ماہ رمضان المبارک میں بھی نماز مغرب جلدی ہی پڑھتے تھے۔
خلاصہ یہ کہ یہ تمام روایات جو دیر تک سحری و جلد افطار کے متعلق آئی ہیں قابل احتجاج نہیں ہیں۔
کتب اہل سنت میں قبل از وقت افطار کرنے والوں کا سخت عذاب میں مبتلا ہونے کا ذکر موجود ہے:
جبکہ کتب اہل سنت میں قبل از وقت افطار کرنے والوں کا سخت عذاب میں مبتلا ہونے کا ذکر موجود ہے ائمہ اہل سنت نے حدیث کو صحیح اسناد سے روایت کیا ہے ابن خزیمہ اپنی صحیح میں ابو امامہ باہلی سے روایت کرتا ہے:
1986 – نا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ، وَبَحْرُ بْنُ نَصْرٍ الْخَوْلَانِيُّ قَالَا: ثنا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، نا ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ أَبِي يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ أَتَانِي رَجُلَانِ، فَأَخَذَا بِضَبْعَيَّ، فَأَتَيَا بِي جَبَلًا وَعْرًا، فَقَالَا: اصْعَدْ، فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أُطِيقُهُ، فَقَالَا: إِنَّا سَنُسَهِّلُهُ لَكَ، فَصَعِدْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي سَوَاءِ الْجَبَلِ إِذَا بِأَصْوَاتٍ شَدِيدَةٍ، قُلْتُ: مَا هَذِهِ الْأَصْوَاتُ؟ قَالُوا: هَذَا عُوَاءُ أَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ انْطُلِقَ بِي، فَإِذَا أَنَا بِقَوْمٍ مُعَلَّقِينَ بِعَرَاقِيبِهِمْ، مُشَقَّقَةٍ أَشْدَاقُهُمْ، تَسِيلُ أَشْدَاقُهُمْ دَمًا قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُفْطِرُونَ قَبْلَ تَحِلَّةِ صَوْمِهِمْ،
ابوا مامہ باہلی سے روایت ہے :میں نے سنا کہ اللہ کے رسول ؐ فرما رہے تھے”میں سو رہا تھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور میرے دونوں بازو پکڑ کر مجھے ایک دشوار گزار پہاڑ کی طرف لے چلے پھر مجھ سے کہا اس پہاڑ پر چڑھو ،میں نے جواب دیا کہ میں اس پر نہیں چڑھ سکتا ،ان دونوں نے کہا کہ ہم آپ کی مدد کرتے ہیں ،چنانچہ میں چڑھنے لگا اور جب میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا تو مجھے تیز آوازیں سنائی دیں ،میں نے پوچھا یہ آواز کیسی ہے ؟ان لوگوں نے کہا کہ یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے پھر وہ دونوں مجھے آگے لے کر چلے،تو میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ الٹے لٹکائے گئے ہیں ،ان کے چبڑے پھاڑے جا رہے ہیں اور چبڑوں سے خون بہ رہا ہے ،میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ،کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو افطار کا وقت ہونے سے قبل روزہ افطار کر لیتے تھے۔
[ﺻﺤﻴﺢ ﺍﺑﻦ ﺧﺰﻳﻤﺔ » ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻮﻡ ۔ ﺑﺎﺏ ﺫﻛﺮ ﺗﻌﻠﻴﻖ ﺍﻟﻤﻔﻄﺮﻳﻦ ﻗﺒﻞ ﻭﻗﺖ ﺍﻹﻓﻄﺎﺭ ﺑﻌﺮﺍﻗﻴﺒﻬﻢ ﻭﺗﻌﺬﻳﺒﻬﻢ ﻓﻲ ﺍﻵﺧﺮﺓ ﺑﻔﻄﺮﻫﻢ ﻗﺒﻞ ﺗﺤﻠﺔ ﺻﻮﻣﻬﻢ ج 2 ص 953/954]
https://islamweb.net/ar/library/index.php?page=bookcontents&ID=1969&bk_no=75&flag=1



اس حدیث کو ابن حبان نے اپنی صحیح-ﺝ 16ص 536 میں روایت کیا ہے کتاب کے محقق شعیب الارنووط نے بھی صحیح کہا ہے حاکم نے المستدرک علی الصحیحین ج 2 ص 66 میں نقل کیا ہے اور مسلم کی شرط پر صحیح کہا ۔
مقبل بن ہادی الوادعی نے الجامع الصحيح مما ليس في الصحيحين ج 5 ص 13 پر نقل کیا ہے۔
یہ امر بلکل واضح ہے کہ افطار کے متعلق امت میں دو ہی طریقے رائج ہیں ایک افطار میں جلدی کرنے والا اہل سنت ان میں بھی بالخصوص نام نہاد اہل حدیث جو احناف سے بھی پہلے افطار کرتے ہیں، دوسرے شیعیان حیدر کرار علیہ السلام جو رات تک روزہ کو مکمل کرتے ہیں اور اطمینان حاصل ہوجانے کے بعد افطار کرتے ہیں، اس حدیث کے مصداق فقط و فقط غیر شیعہ ہیں۔
اللہ سبحانہ تعالی نے انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے اس امر پر عقل بھی دلالت کرتی ہے کہ سحر میں احتیاط کے سبب فجر سے کچھ پہلے امساک کرے اور افطار میں اتنی دیر کرے کہ یقین ہوجائے رات ہو گی تاکہ روزہ کے مکمل ہونے کے متعلق کوئی شک باقی نہ رہے۔