بخاری کی تحریف (وضو میں سر اور پاؤں پر مسح)

بخاری کا حدیث میں تحریف کرنا۔

لفظ (مَسَحَ)یعنی مسح کیا کو بدل کر (ذَكَرَ) یعنی تذکرہ کیا کر دیا ، جس میں ذکر تھا حضرت علی علیہ السلام نے وضو میں سر اور پیر پر مسح کیا ۔

ابوداؤد الطیالسی نے اپنی مسند میں بنا تحریف کے اس حدیث کو نقل کیا ہے :

١٤١ – حَدَّثَنَا ‌أَبُو دَاوُدَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌شُعْبَةُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ‌عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ‌النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ ، يَقُولُ: «صَلَّى ‌عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الظُّهْرَ فِي الرَّحَبَةِ ثُمَّ جَلَسَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ أُتِيَ بِكُوزٍ مِنْ مَاءٍ، فَصَبَّ مِنْهُ كَفًّا فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَ الْمَاءِ، وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ أَنْ يَشْرَبُوا وَهُمْ قِيَامٌ، وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ الَّذِي فَعَلْتُ، وَقَالَ: هَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ».

حدیث نمبر ۱۴۱:

ہم سے ابو داؤد نے بیان کیا، کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا: مجھے عبد الملک بن میسرہ نے خبر دی، کہا: میں نے نزال بن سبَرہ کو یہ کہتے ہوئے سنا:

"حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رحبہ (جگہ کا نام ہے) میں ظہر کی نماز پڑھی، پھر لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بیٹھ گئے، یہاں تک کہ عصر کا وقت آ گیا۔ پھر ان کے پاس پانی کا ایک کوزہ لایا گیا، تو انہوں نے اس میں سے ایک چلو پانی لیا اور اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، اور اپنے سر اور پاؤں پر مسح کیا۔ پھر کھڑے ہو کر بچے ہوئے پانی کو پی لیا۔ پھر فرمایا: ‘کچھ لوگ پسند نہیں کرتے کہ کھڑے ہو کر پانی پیا جائے، حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے بھی اسی طرح کیا جیسا میں نے کیا۔’ اور فرمایا: ‘یہ اُس شخص کا وضو ہے جس نے ابھی وضو نہیں توڑا۔'”

الكتاب: مسند أبي داود الطيالسي

المؤلف: أبو داود الطيالسي سليمان بن داود بن الجارود (ت ٢٠٤ هـ)

المحقق: الدكتور محمد بن عبد المحسن التركي

الناشر: دار هجر – مصر

الطبعة: الأولى، ١٤١٩ هـ – ١٩٩٩ م

https://shamela.ws/book/1456/147

بخآری کی نقل کی ہوئی حدیث:

حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ ، سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ يُحَدِّثُ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّهُ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ قَعَدَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ فِي رَحَبَةِ الْكُوفَةِ ، حَتَّى حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ ، ثُمَّ أُتِيَ بِمَاءٍ فَشَرِبَ ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ ، وَذَكَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَهُ وَهُوَ قَائِمٌ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ الشُّرْبَ قِيَامًا ، وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ .

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا، انہوں نے نزال بن سبرہ سے سنا، وہ علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ   انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی پھر مسجد کوفہ کے صحن میں لوگوں کی ضرورتوں کے لیے بیٹھ گئے۔ اس عرصہ میں عصر کی نماز کا وقت آ گیا پھر ان کے پاس پانی لایا گیا۔ انہوں نے پانی پیا اور اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، ان کے سر اور پاؤں ( کے دھونے کا بھی ) ذکر کیا۔ پھر انہوں نے کھڑے ہو کر وضو کا بچا ہوا پانی پیا، اس کے بعد کہا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یونہی کیا تھا جس طرح میں نے کیا، وضو کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔

صحيح بخاري ح 5616

https://hamariweb.com/islam/hadith/sahih-bukhari-5616/

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ بخآری نے کیسے ہوشیار اور چالاکی سے لفظ مسح کو بدل دیا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کے کا یہ عمل شیعوں کے وضو کے صحیح ہونے پر دلیل ہے ۔اور التشیع کی علی علیہ السلام کے اتباع کی بہترین دلیل ہے جسکا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ہے ۔

اہلسنت والجماعت انصاف سے بتائیں کیا ایسا انسان جو حدیث کے الفاظ کو بدلتا ہو کیا اس میں امانتداری ہو سکتی ہے ؟

کیا ایسی انسان کی کتاب جو صحیح کا درجہ دیا جا سکتا ہے ؟